20%

(۴)

تمہیں کیا، کربلا میں ہم نے پیشانی کہاں رکھ دی

ہماری چیز ہے ہم نے جہاں چاہا وہاں رکھ دی

*

جب اس نے اشکِ شہ پر نارِ دوزخ سے اماں رکھ دی

سجا کر ہم نے پلکوں پر جواہر کی دکاں رکھ دی

*

حقیقت دیکھ لیں بینائی اس نے اس لئے دیدی

پڑھیں مدحت علی کی اس لئے منہ میں زباں رکھ دی

*

اڑا جب جذبۂ مداحی حیدر ہمیں لے کر

ہمارے پائوں کے نیچے فلک نے کہکشاں رکھ دی

*

پس اذنِ وغا یہ بھی زمانہ پوچھتا پھرتا

بساطِ اَرض اے عباس تہ کرکے کہاں رکھ دی

*

بھنور میں آرہا تھا لطف ان کو یاد کرنے کا

ہوائوں نے یہ کشتی لاکے ساحل پر کہاں رکھ دی

*

کہ دل میں جذبۂ شوق شہادت اور بڑھ جائے

علی اکبر کے منہ میں اس لئے شہ نے زباں رکھ دی

*

اگر رونا پڑے تو رو سکوں شبیر پر کھل کر

مری فطرت میں اس نے اس لئے آہ و فغاں رکھ دی

*