(۴)
تمہیں کیا، کربلا میں ہم نے پیشانی کہاں رکھ دی
ہماری چیز ہے ہم نے جہاں چاہا وہاں رکھ دی
*
جب اس نے اشکِ شہ پر نارِ دوزخ سے اماں رکھ دی
سجا کر ہم نے پلکوں پر جواہر کی دکاں رکھ دی
*
حقیقت دیکھ لیں بینائی اس نے اس لئے دیدی
پڑھیں مدحت علی کی اس لئے منہ میں زباں رکھ دی
*
اڑا جب جذبۂ مداحی حیدر ہمیں لے کر
ہمارے پائوں کے نیچے فلک نے کہکشاں رکھ دی
*
پس اذنِ وغا یہ بھی زمانہ پوچھتا پھرتا
بساطِ اَرض اے عباس تہ کرکے کہاں رکھ دی
*
بھنور میں آرہا تھا لطف ان کو یاد کرنے کا
ہوائوں نے یہ کشتی لاکے ساحل پر کہاں رکھ دی
*
کہ دل میں جذبۂ شوق شہادت اور بڑھ جائے
علی اکبر کے منہ میں اس لئے شہ نے زباں رکھ دی
*
اگر رونا پڑے تو رو سکوں شبیر پر کھل کر
مری فطرت میں اس نے اس لئے آہ و فغاں رکھ دی
*