(۵)
سرمۂ حُبِّ علی جب سے مری آنکھوں میں ہے
ماہِ دو ہفتہ سے تابِ ہمسری آنکھوں میں ہے
*
کٹ رہی ہے چین سے حُبِّ علی میں زندگی
نورِ ایماں قلب میں دیدہ وری آنکھوں میں ہے
*
ہے تصور میں زمینِ کاظمین و سامرہ
جنت الفردوس کی خوش منظری آنکھوں میں ہے
*
جارہا ہے یوں کوئی ، لَولا علی، کہتا ہوا
دلِ میں حسرت، سرمۂ بیچارگی آنکھوں میں ہے
*
خالی ہاتھوں کی طرف اِن کے نہ دیکھو حشر میں
کربلا والوں کا رختِ بندگی آنکھوں میں ہے
*
کیجئے اس پر غمِ شہ کے خزانوں کا قیاس
نائو اک لعل و جواہر سے بھری آنکھوں میں ہے
*
چاند پھر دیکھیں محرم کا تو کچھ باتیں کریں
نو مہینے بیس دن سے خاموشی آنکھوں میں ہے
*