20%

منوّر عباس شہاب

کبھی فرطِ ادب میں اشک افشانی نہیں جاتی

ہیں لب خاموش لیکن مرثیہ خوانی نہیں جاتی

*

حرم کی بے ردائی نے لیا ہے انتقام ایسا

یزیدیت کی پردوں میں بھی عریانی نہیں جاتی

*

نہ بھرتے رنگ اِس میں گر لہو سے کربلا والے

تو آج اسلام کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی

*

حکومت اہلِ دنیا کی فقط حاکم کے دم تک ہے

دلوں پر جو حکومت ہو وہ سلطانی نہیں جاتی

*

کوئی حق کا مجاہد سر بکف آتا ہے میداں میں

ُ ُکھلے سر شام کے بلوے میں سیدانی نہیں جاتی

*

ہزاروں بندشیں ہوتی ہیں ماتم پہ شہیدوں کی

شہاب اس پر بھی اپنی مرثیہ خوانی نہیں جاتی

***