منوّر عباس شہاب
کبھی فرطِ ادب میں اشک افشانی نہیں جاتی
ہیں لب خاموش لیکن مرثیہ خوانی نہیں جاتی
*
حرم کی بے ردائی نے لیا ہے انتقام ایسا
یزیدیت کی پردوں میں بھی عریانی نہیں جاتی
*
نہ بھرتے رنگ اِس میں گر لہو سے کربلا والے
تو آج اسلام کی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
*
حکومت اہلِ دنیا کی فقط حاکم کے دم تک ہے
دلوں پر جو حکومت ہو وہ سلطانی نہیں جاتی
*
کوئی حق کا مجاہد سر بکف آتا ہے میداں میں
ُ ُکھلے سر شام کے بلوے میں سیدانی نہیں جاتی
*
ہزاروں بندشیں ہوتی ہیں ماتم پہ شہیدوں کی
شہاب اس پر بھی اپنی مرثیہ خوانی نہیں جاتی
***