میر مہدی علی شہید لکھنوی شہید یار جنگ
(۱)
دنیا میں ہے حسین پہ بس انتہائے رنج
رنج ان کے واسطے تھا تو یہ تھے برائے رنج
*
اصغر کا داغ اور دلِ صد پارۂ حسین
یہ انتہائے صبر ہے وہ انتہائے رنج
*
ہو خاتمہ بخیر دعا ہے یہ صبح و شام
تکلیف ہے جہاں میں تو کیا اس میں جائے رنج
*
وہ مرد ہے جو چہرے سے ظاہر نہ ہونے دے
پہنچے بھی گر کسی سے تو دل میں چھپائے رنج
*
تھا خاتمہ حسین پہ دنیا میں رنج کا
آدم سے اس جہاں میں ہوئی ابتدائے رنج
*
دنیا میں ایک لحظہ بھی پوری خوشی کہاں
فرحت میں بھی نکلتا ہے گوشہ برائے رنج
*
دل ٹوٹتا ہے جب تو نکلتی ہے آہ بھی
چھپتی نہیں چھپائے سے ہرگز صدائے رنج
*