(۳)
غمِ حسین کا گر ذکر داستاں میں نہیں
اثر زباں میں نہیں ہے مزا بیاں میں نہیں
*
جمالِ حضرتِ عباس اے تعال اللہ
زمین کیا ہے جواب اس کا آسماں میں نہیں
*
خدا کہوں میں علی کو ارے معاذ اللہ
یہ بات میرے تصور مرے گماں میں نہیں
*
زُہیر قین وہ اسّی برس کا مردِ ضعیف
یہ جوشِ جنگ یہ قوت کسی جواں میں نہیں
*
حرم کے قافلے کی شان ہی نرالی ہے
کہ دو قدم کی سکت پائے سارباں میں نہیں
*
زباں دکھا دی لبوں پر پھرا نہیں سکتی
اب اتنی جان بھی اللہ بے زباں میں نہیں
*
خدا ہی جانے رہِ شام کیسے طے ہوگی
کہ سانس لینے کی طاقت بھی ناتواں میں نہیں
*