(۳)
کربلا ہیں تجھ میں ایسے رہ نما ٹھہرے ہوئے
گردشوں پر بھی ہیں جن کے نقشِ پا ٹھہرے ہوئے
*
آج تک آنکھوں میں ہیں اشکِ عزا ٹھہرے ہوئے
اک جہاں میں ہم ہیں بس غم آشنا ٹھہرے ہوئے
*
دیتے ہیں راہِ عمل سے یہ صدا اب تک حسین(ع)
ہم شفاعت کو ہیں تا روزِ جزا ٹھہرے ہوئے
*
اڑ رہا ہے جس بلندی پر َعلم عباس(ع) کا
اب اسی مرکز پہ ہیں اہلِ وفا ٹھہرے ہوئے
*
دو جہاں سے لے چکی بیعت وفا عباس(ع) کی
دو کٹے ہاتھوں پہ ہیں ارض و سما ٹھہرے ہوئے
*
بڑھتے ہیں اپنی جگہ سے شہ(ع) بہ الطاف و کرم
حر(ع) پشیماں ہورہے ہیں اپنی جا ٹھہرے ہوئے
*
ان پہ کیا گزرے گی تیری اٹھتی موجیں دیکھ کر
سامنے پیاسے جو ہیں اے علقمہ ٹھہرے ہوئے
*
جنگِ قاسم(ع) دیکھ کر حیرت سے کہتے تھے عدو
کم سنی میں بھی ہیں ان کے وار کیا ٹھہرے ہوئے
*