20%

(۳)

کربلا ہیں تجھ میں ایسے رہ نما ٹھہرے ہوئے

گردشوں پر بھی ہیں جن کے نقشِ پا ٹھہرے ہوئے

*

آج تک آنکھوں میں ہیں اشکِ عزا ٹھہرے ہوئے

اک جہاں میں ہم ہیں بس غم آشنا ٹھہرے ہوئے

*

دیتے ہیں راہِ عمل سے یہ صدا اب تک حسین(ع)

ہم شفاعت کو ہیں تا روزِ جزا ٹھہرے ہوئے

*

اڑ رہا ہے جس بلندی پر َعلم عباس(ع) کا

اب اسی مرکز پہ ہیں اہلِ وفا ٹھہرے ہوئے

*

دو جہاں سے لے چکی بیعت وفا عباس(ع) کی

دو کٹے ہاتھوں پہ ہیں ارض و سما ٹھہرے ہوئے

*

بڑھتے ہیں اپنی جگہ سے شہ(ع) بہ الطاف و کرم

حر(ع) پشیماں ہورہے ہیں اپنی جا ٹھہرے ہوئے

*

ان پہ کیا گزرے گی تیری اٹھتی موجیں دیکھ کر

سامنے پیاسے جو ہیں اے علقمہ ٹھہرے ہوئے

*

جنگِ قاسم(ع) دیکھ کر حیرت سے کہتے تھے عدو

کم سنی میں بھی ہیں ان کے وار کیا ٹھہرے ہوئے

*