(۴)
ہو خلوصِ قلب کا مظہر کلام ایسا تو ہو
فاطمہ روئیں جسے ُسن کر سلام ایسا تو ہو
*
جون تیرے اک لہو کی بوند پر دنیا نثار
پائوں پر آقا کے دم نکلے غلام ایسا تو ہو
*
سامنے آنکھوں کے پھر جائے سماں حالات کا
رات رونے میں کٹے کچھ ذکرِ شام ایسا تو ہو
*
حر تری تقدیر پر شاہوں کو بھی آتا ہے رشک
پیشوائی خود کرے آقا غلام ایسا تو ہو
*
ہو شہید ایسا کہ مٹی سجدہ گاہِ خلق ہو
خاک ہو تسبیح میں داخل امام ایسا تو ہو
*
نشّہ جس کا حشر تک رہ جائے ہو ایسی شراب
ساقیٔ کوثر سے جو ہاتھ آئے جام ایسا تو ہو
*
دل تڑپ جاتا ہے جب کہتا ہے کوئی یا حسین
آنکھ سے آنسو نہ تھمنے پائیں نام ایسا تو ہو
*
منبرِ دوشِ رسالت پر ہوا خطبہ سرا
ہاں جو مولا ہو تو ایسا ہو امام ایسا تو ہو
*