(۵)
غمِ شہ کا ہوگا بیاں رفتہ رفتہ
جگر سے اٹھے گا دھواں رفتہ رفتہ
*
ہوئے پھول صرفِ خزاں رفتہ رفتہ
نشاں ہوگئے بے نشاں رفتہ رفتہ
*
نبوت کی آغوشِ الفت میں پل کر
علی ہورہے ہیں جواں رفتہ رفتہ
*
صعوبات ہوں لاکھ، منزل پہ اک دن
پہنچ جائے گا کارواں رفتہ رفتہ
*
قریبوں کا غم اور عزیزوں کی فرقت
ہوا شاہ کا امتحاں رفتہ رفتہ
*
بڑھی اور زین العبا کی نقاہت
گراں ہوگئیں بیڑیاں رفتہ رفتہ
*
سکینہ کے دل میں بڑھا شمر کا ڈر
کہ نالے ہوئے سسکیاں رفتہ رفتہ
*