(۷)
شکوہِ مرحبی و شانِ عنتری کیا ہے
یہ بے حواسیاں کیا ہیں یہ تھرتھری کیا ہے
*
قدم قدم پہ نشانِ قدم ہیں حیدر کے
زمیں کے آگے بھلا چرخِ چنبری کیا ہے
*
کہا یہ فوج سے عباس نے ٹھہر جائو
بتائوں گا تمہیں میں زورِ حیدری کیا ہے
*
حبیب آئے ہیں زینب سلام بھیجتی ہیں
بتا رہی ہیں ہمیں بندہ پروری کیا ہے
*
کہا یہ بیٹوں سے زینب نے ہے َعلم کا خیال
سمجھتے بھی ہو یہ میراثِ حیدری کیا ہے
*
کسی نے قید میں سجاد کو اگر دیکھا
سمجھ میں آگیا اس کی کہ لاغری کیا ہے
*
بتایا حضرتِ عباس نے لبِ دریا
وفا کی شان ہے کیا اور دلاوری کیا ہے
*
لچک کے کہتا ہے پنجہ عَلم کا حیدر کے
کہ میرے آگے یہ خورشیدِ خاوری کیا ہے
*