(۸)
مال کا طالب کہاں ہوں کب مجھے زر چاہیے
اک نگاہِ لطف اے سبطِ پیمبر چاہیے
*
آج پھر اسلام کی ہوتی ہے تجدیدِ حیات
پیرویٔ اسوۂ سبطِ پیمبر چاہیے
*
حر ابھی کیا تھا ابھی کیا ہوگیا شانِ خدا
ایسی قسمت چاہیے ایسا مقدر چاہیے
*
شہ نے فرمایا کہ شکوہ کیوں کسی کا لب پہ آئے
شکرِ خلاقِ دو عالم زیرِ خنجر چاہیے
*
کہہ رہے ہیں کہنے والے فتح کچھ آساں نہیں
بابِ خیبر کے لئے بازوئے حیدر چاہیے
*
دوشِ احمد پر علی کعبہ میں دیتے ہیں اذاں
اس مُکبر کے لئے ایسا ہی منبر چاہیے
*
ہم گنہگاروں کے دل میں یہ تمنا ہے شہید
سایۂ دامانِ زہرا روزِ محشر چاہیے
***