مرزا صادق حسین شہید لکھنوی
دینِ فطرت کی آبرو ہے حسین
حق یہ ہے حق کی آروز ہے حسین
*
زیرِ خنجر ترا گلو ہے حسین
پھر بھی خالق سے گفتگو ہے حسین
*
منہ پہ بے شیر کا لہو ہے حسین
پیشِ معبود سرخرو ہے حسین
*
یوں بھی کوئی نماز پڑھتا ہے
خونِ بے شیر سے وضو ہے حسین
*
آج کونین میں ہے ذکر ترا
دونوں عالم میں تو ہی تو ہے حسین
*
یہ حقیقت ہے ہر جگہ ہے خدا
یہ بھی سچ ہے کہ چار سو ہے حسین
*
باغِ ایماں کے غنچے غنچے میں
رنگ تیرا ہے تیری بوٖ ہے حسین
*