مفسرین حروف مقطعات کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذکر سے یہ فائدہ مقصود ہے کہ یہ قرآن، حروف تہجی یعنی ا،ب،ج، د ہی سے مرکب اور مرتب ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ قرآن مجید کاکچھ حصہ مقطع (جدا جدا)حروف میں آیا ہے اور باقی تمام مرکب الفاظ ہیں غرض یہ تھی کہ جن لوگوں کی زبان میں قرآن حکیم کانزول ہوا ہے وہ معلوم کرلیں کہ قرآن انہی کی زبان میں ہے اور انہی حروف میں نازل ہوا ہے جن کو وہ جانتے اور اپنے کلام میں برتتے ہیں اور یہ بات ان لوگوں کے قائل کرنے اور ان کے قرآن حکیم کے مثل لانے سے عاجز ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ایک زبردست دلیل ہے کیونکہ اہل عرب باوجود یہ معلوم کرلینے کے کہ قرآن حکیم انہی کی زبان میں اترا اور انہی حروف تہجی کے ساتھ نازل ہوا جس سے وہ اپنے کلام کو بناتے ہیںپھر بھی قرآن کی اس تحدی (چیلنج) کو قبول کرنے سے عاجز رہے کہ اس کے مثل کوئی سورہ یا کم از کم ایک آیت ہی پیش کر سکیں۔(۴۸)
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی مقطعات کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں” حروف مقطعات کے سلسلے میں سب سے پہلے یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ان کی حیثیت ان سورتوں کے نام یاعنوان کی سی ہے جس سورة سے اس کا تعلق ہوتا ہے چنانچہ جو باتیں سورة میں تفصیلی طور پرموجودہوتی ہیں وہ اجمالی طور پر حروف مقطعات میں بھی مضمر ہوتی ہیںمثلاً جب کوئی کتاب لکھی جاتی ہے تو اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے لیکن نام رکھنے میں ہمیشہ کتاب کے مضمون کی مناسبت کا خیال رکھا جاتا ہے اور ایک ایسانام تجویز کیاجاتا ہے جس کے سنتے ہی کتاب کی حقیقت اور اس کا مفہوم سننے والے کے ذہن میں آ جائے مثلاً امام بخاری نے اپنی حدیث کا نام”الجامع الصحیح المسند فی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا ہے اس نام کے سنتے ہی یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کتاب میں آنحضرت کی احادیث صحیحہ کو جمع کیاگیاہے۔(۴۹)
____________________
۴۸۔ الاتقان، حوالہ مذکور،ح۲،ص۲۹ ۴۹۔ شاہولی اللہ،الفوزالکبیرفی اصول التفسیر(مترجم)قرآن