” بیان القرآن“ اور ”تفہیم القرآن“ کے اردو تراجم قرآن کا تقابلی جائزہ
تحریر:ڈاکٹر غزل کا شمیری
قرآن پاک کے اکثر اردو تراجم میں معنوی یگانگت کا ہونا ایک فطری امر ہےلیکن اگر دو تراجم میں لفظی اتحاد ہواور وہ بھی ان گنت آیات کے تراجمتو یہ ایک عجیب مظہر ثابت ہو گایہ عجیب مظہر مولانا اشرف علی تھانوی کی تفسیر”بیان القرآن“ اور مولانا ابوالاعلی مودودی کی تفسیر ”تفہیم القرآن“ کے اردو تراجم میں پایا جاتا ہے دونوں بزرگوں کے اردو تراجم، تفسیروں سے علیحدہ بھی طبع ہو چکے ہیں۔ اگرتراجم میں لفظی مماثلت دو چار مقامات تک محدود ہو تو ہم یہ عذر کر سکتے ہیں کہ یہ ایک علمی آمد اور آفاقی حقیقت ہے جودو جینئیس حضرات کے نظریہ اور کلام میں مُلھم ہو جاتی ہےلیکن اگر یہ یک رنگی لاتعداد مقامات پر ملے تو لازماً یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ متاخر جینئیس نے مقدم سے شعوری سے استفادہ کیا ہے یہ اور بات ہے کہ وہ مقدم کو اپنا ماخذ تسلیم نہ کرے۔
آئیے ان مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں جن کے مطابق بیان القرآن اور ”تفہیم القرآن“ میں قرآن پاک کی آیات کے اسماء و افعال کے تراجم میں لفظی مماثلت پائی جاتی ہےیہاں یہ حقیقت پھر مدنظر رہے کہ ہم نے وہی مثالیں پیش کی ہیں جن میں مشابہت لفظی ہے مثلاًدرج ذیل مثال سے ہم نے اعراض کیاہےسورة القصص کی آیت۵۹:
( وَمَاکَانَ رَبُّکَ مُهْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثُ فیْ اُمِّهَا رَسُوْلاً )
مولانا تھانوی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں”اور آپ کا رب بستیوں کو ہلاک نہیں کیا کرتا جب تک ان کے صدر مقام میں کسی پیغمبر کو نہ بھیج لے“ مولانا مودودی اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیںاور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھاجب تک کہ اس کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا