”تفسیر ابن کثیر" کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں واقعات اور احکام کے اسرار و رموز بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسلوب مصنف نے امام فخر الدین رازی کی پیروی میں اختیار کیا ہے۔ چنانچہ ابن کثیر نے مختلف واقعات اور قصص کو بحث و تحقیق کا موضوع بنایا ہے اور حقائق تک پہنچنے کی سعی کی ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کے احکام کو بھی انہوں نے دقت نظر سے لکھا ہے، مثلاً سورة فاتحہ کے تمام مطالب کی حکیمانہ تشریح کی ہے اور پھر لکھتے ہیں: ”یہ مبارک سورة نہایت کارآمد مضامین کا مجموعہ ہے۔ ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد، اس کی بزرگی، اس کی ثناء و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں کا اور اس کی بلندو بالا صفتوں کا بیان ہے۔ اس سورة میں قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ وہ صرف اسی سے سوال کریں، اس کی طرف تضرع وزاری کریں، اپنی مسکینی و بے کسی کا اقرار کریں، اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اس کی توحید والوہیت کا اقرار کریں اور اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں، صراط مستقیم کی اور اس پر ثابت قدمی کی اس سے مدد طلب کریں۔ یہی ہدایت انہیں قیامت کے دن پل صراط سے بھی پار پہنچا دے گی اور نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے قرب میں جنت الفردوس میں جگہ دلوائے گی۔ یہ سورة نیک اعمال کی ترغیب پر بھی مشتمل ہے تاکہ قیامت کے دن نیک لوگوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے خوف دلایا گیا ہے تاکہ قیامت کے دن ان کی جماعتوں سے دوری ہو۔"(۵۷) ( ویقمیون الصلوٰة وممارزقنٰهم ینفقون ) (سورةالبقرة: ۳) کے تحت لکھتے ہیں ”قرآن کریم میں اکثر جگہ نماز کا اور مال خرچ کرنے کا ذکر ملا جلاملتا ہے، اس لیے نماز خدا کا حق ہے اور اس کی عبادت ہے جو اس کی توحید، اس کی ثناء اس کی بزرگی، اس کی طرف جھکنے، اس پر توکل کرنے اس سے دعا کرنے کا نام ہے اور خرچ کرنا مخلوق کی طرف احسان ہے جس سے انہیں نفع پہنچے۔ اس کے زیادہ حقدار اہل و عیال اور غلام ہیں، پھر دور والے اجنبی۔ پس تمام واجب خرچ اخراجات اور فرض زکوٰة اس میں شامل ہے۔"(۵۸)
___________________
۵۷۔ ایضاً،۱/۳۰ ۵۸۔ ایضاً،۱/۴۲نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۲۸۶