اسی طرح مخزن الاسرار فی علوم القرآن بانوی ایرانی کی تالیف ہے یہ ۱۶ جلدوں میں تفسیر ہے۔ جس کا ہم نے تذکرہ نہیں کیا۔
اسی طرح ستر البیان فی علم القرآن،حسن بیگلری کی تحریر کردہ کتاب ہے جو علم تجوید سے متعلق ہے اس کا تذکرہ کتب تجوید کی فہرست میں ہونا چاہیے۔
صدر اسلام ہی سے اہل علم ودانش صحابہ تابعین اور تبع تابعین علوم قرآن میں سے کسی ایک یا چند علوم میں مہارت رکھتے تھے اورانہوں نے خاص موضوعات میں تحریریں اور کتب یادگار چھوڑی ہیںمثلاً ابو عبید قاسم بن سلام (متوفی۲۲۴) نے بقول ابن ندیم کے درج ذیل کتب تحریر کی ہیںغریب القرآن، معانی القرآن،القرائات،کتاب عدد آی القران، کتاب ناسخ ومنسوخ اور فضائل القرآن یہ تمام موضوعات اصطلاحاً علوام القرآن کہلاتے ہیں۔
ابن ندیم نے ابن کامل کے حالاتِ زندگی بیان کرتے ہوئے انہیں ” احمد المشہورین فی علوم القرآن“ قرار دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ چوتھی صدی اور ابن ندیم کے زمانہ سے ہی علوم قرآنی کی اصطلاح رائج رہی ہے البرھان فی علوم القرآن اور الاتقان میں بنیادی طور پر انہیں علوم پر بحث کی گئی ہے۔ متقدمین نے اپنے ذوق اور سلیقہ کے مطابق علوم قرآن کی تقسیم بندی کی ہےمثلاً جلال الدین سیوطی نے نزول قرآن کو رات دن،سردی و گرمی،سفرحضروغیرہ میں تقسیم کر کے علوم قرآن کی ۸۰ اقسام بیان کی ہیں۔ نے علامہ قطب الدین شیرازی (متوفی۶۴۸) نے علوم قرآن کو بارہ موضوعات میں تقیسم کیا ہے متقدمین کے نظریات سے آگا ہی حاصل کرنے کے لئے ہم قطب الدین شیرازی کی آراء و نظریات کا یہاں پر تذکرہ کریں گے۔