قطب الدین شیرازی کہتے ہیں علم فروع دو قسموں کا ہےایک مقصود اور دوسرا تبع مقصود، مقصود کے چار رکن ہیں پہلارکن علم کتاب ہے اور اسکی بارہ اقسام ہیں۔
۱۔ علم قرائت: اسکی دو اقسام ہیں ایک قرائات سبع، جو کہ نبی کریم سے تواتر سے مروی روایات سے اخذ ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے۔ اور دوسری شواذّ اوریہ آحاد کی روایات کی ساتھ مروی ہے اور اسکے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔
۲۔ علم وقوف : یعنی آیات کہاں پر ختم ہوتی ہیں اور دوران آیت کہاں پر وقف کیا جاسکتا ہے اور یہ منقولی علم ہے
بعض اوقات کلمات قرآن قیاس کے حکم کی بنا پر ایک آیت شمار ہوتے ہیں لیکن بحکم روایت ایک سے زیادہ آیات ہوتی ہیں مثلاً( الحَمدُلِلِه رَبِّ العَالِمینَ اَلرَّحمنِ الَّرحیِم ماَلِک یوَمِ الدّین ) قیاس کے حساب سے ایک کلام ہے کیونکہ یہ سب صفات ایک ہی موصوف کی ہیں پس بنابراین قیاس اسے ایک آیت ہونا چاہیے لیکن بحکم روایت یہ تین آیات ہیں لیکن بعض مواقع پر اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہےجیسے سورہ بقرہ کی آخری آیت ہے قارئین کو معلوم ہونا چاہیے کہ وقف کے سبب معانی بھی مختلف ہو جاتے ہیں جیسا کہ اس آیت میں ہے( وَماٰیعلم تاَوِیلَه اِلاَّاللهُ والراسخُونَ فیِ العلم ) اگر یہاں پر وقف کریں تو مراد یہ ہو گی کہ متشابہات کی تاویل خدا جانتا ہے اور وہ لوگ جو علم میں راسخ ہیں اور اگر اللہ پر وقف کریں تو معنی ہو گا کہ صرف خدا ہی تاویل متشابہات جانتا ہے۔
۳۔ علم لُغاتِ قرآن کا جاننا بھی ایک مفسر کے لئے انتہائی ضروری ہوتا ہے۔
۴۔ علم اعراب ہے اس علم کے جانے بغیرتفسیر قرآن کا شروع کرنا جائزنہیں ہے کیونکہ قرآن کے معافی لغت اور اعراب کی وساطت سے جانے جاتے ہیں