سورہ بقرہ کی پہلی ہی آیت میں مذکورہے:
( ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ )
اور سورہ لقمان میں ہے :
( تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ هُديً وَرَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِينَ )
یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر یہ کیوں صرف متقین اور محسنین ہی کے لیے صحیفہ ہدایت ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مولانا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی درجہ بدرجہ ہدایت دی ہے ہدایت کا پہلا زینہ ہدایت جبلت ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہوا ہے:
( وَالَّذِی قَدَّرَ فَهَدَى ) ( فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا )
یہ دراصل ادراک وتعقل اور ذوق وجدان کی ہدایت ہے جس میں تمام نبی نوع انسان یکساں طور پر شامل ہیںاور اس کی مدد سے وہ اپنے کاموں میں نظم و ترتیب پیدا کرسکتے ہیں اور اپنی ذاتی قوت فیصلہ سے شر کو چھوڑ کر خیر کو اختیار کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہدایت کا دوسرا درجہ انبیاء ورسل کی بعثت سے ظہور میں آیاچنانچہ انبیاء ورسل کی کدوکاوش سے شریعت کا وجود ہوا اور اس شریعت کی تکمیل بھی بتدریج ہوئی آخر میں آنحضور نے اس شریعت کی تکمیل فرمائی جسے دین اسلام کے نام سے دنیا جانتی ہے قرآن کریم نے براہ راست تین جماعتوں کو مخاطب کیا ہے عرب ،یہود اور نصاری،عربوں میں کچھ ایسے تھے جو دین ابراہیمی کی سادگی پر قائم تھےاسی طرح یہود کی ایک چھوٹی سی جماعت حق پر قائم تھیاور نصاری میں سے کچھ لوگ بھی صحیح دین مسیح پر باقی تھےقرآن نے سب سے پہلے عربوں کو مخاطب کیا چنانچہ ان میں جو دین ابراہیمی کی فطری سادگی پر قائم تھے انہوں نے جب قرآن کی آواز سنی تو ان کو محسوس ہوا کہ گویا اپنے ہی دل کی آواز سن رہے ہیںانہوں نے دعوت قرآن کو بغیر معجزہ کے مطالبہ کے قبول کر لیاسورہ نور میں انہی لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیاکہ