۳۰ ۔ معراج؛ جسمانی تھی یا روحانی اور معراج کا مقصد کیا تھا؟
شیعہ ،سنی تمام علمائے اسلام کے درمیان مشہور ہے کہ رسول اسلام کو یہ عالم بیداری میں معراج ہوئی، چنا نچہ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی آیات کا ظاہری مفہوم بھی اس بات پر گواہ ہے کہ یہ بیداری کی حالت میں معراج ہوئی۔
اسلامی تواریخ بھی اس بات پر گواہ ہیں چنا نچہ بیان ہوا ہے : جس وقت رسول اللہ نے واقعہ معراج کو بیان کیا تو مشرکین نے شدت کے ساتھ اس کا انکار کردیا اور اسے آپ کے خلاف ایک بہانہ بنالیا۔
یہ بات خود اس چیز پرگواہ ہے کہ رسول اللہ (ص)ہرگز خواب یا روحانی معراج کے مدعی نہ تھے ورنہ مخالفین اتناشور وغل نہ کرتے ۔
لیکن جیساکہ حسن بصری سے روایت ہے : ”کان فی المنام رویا رآها “ (یہ واقعہ خواب میں پیش آیا )
اور اسی طرح حضرت عائشہ سے روایت ہے : ”والله ما فقد جسد رسول الله (ص) ولکن عرج بروحه “
”خداکی قسم بدن ِرسول اللہ (ص)ہم سے جدا نہیں ہوا صرف آپ کی روح آسمان پر گئی“۔
ظاہراً ایسی روایات سیاسی پہلو رکھتی ہیں۔(۱)
معراج کا مقصد
یہ بات ہمارے لئے واضح ہے کہ معراج کا مقصد یہ نہیں کہ رسول اکرم دیدار خدا کے لئے آسمانوں پر جائیں، جیسا کہ سادہ لوح افرادخیال کرتے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض مغربی دانشور بھی ناآگاہی کی بنا پر دوسروں کے سامنے اسلام کا چہرہ بگاڑکر پیش کرنے کے لئے ایسی باتیں کرتے ہیں جس میں سے ایک مسڑ” گیور گیو“ بھی ہیں وہ بھی کتاب ”محمد وہ پیغمبر ہیں جنہیں پھرسے پہچاننا چاہئے“(۲) میں کہتے ہیں:”محمد اپنے سفرِ معراج میں ایسی جگہ پہنچے کہ انہیں خدا کے قلم کی آواز سنائی دی، انہوں نے سمجھا کہ اللہ اپنے بندوں کے حساب کتاب میں مشغول ہے البتہ وہ اللہ کے قلم کی آواز تو سنتے تھے مگر انہیں اللہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ کوئی شخص خدا کو نہیں دیکھ سکتا خواہ پیغمبر ہی کیوں نہ ہوں“
یہ عبارت نشاندھی کرتی ہے کہ وہ قلم لکڑی کا تھا، اور وہ کاغذ پر لکھتے وقت لرزتاتھا اور اس سے آواز پیدا ہوتی تھی ،اوراسی طرح کی اور بہت سے خرافات اس میں موجود ہیں “۔
جب کہ مقصدِ معراج یہ تھا کہ اللہ کے عظیم پیغمبر کائنات بالخصوص عالم بالا میں موجودہ عظمت الٰہی کی نشانیوں کا مشاہدہ کریں اور انسانوں کی ہدایت ورہبری کے لئے ایک نیا احساس اور ایک نئی بصیرت حاصل کریں ۔ معراج کاہدف واضح طورپر سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور سورہ نجم کی آیت ۱۸ میں بیان ہوا ہے۔
اس سلسلہ میں ایک روایت امام صادق علیہ السلام سے بیان ہوئی ہے جس میں آپ سے مقصد معراج پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
”إنَّ الله لا یُوصف بمکانٍ ،ولایُجری علیه زمان ،ولکنَّه عزَّوجلَّ اٴرادَ اٴنْ یشرف به ملائکته وسکان سماواته، و یکرَّمهم بمشاهدته ،ویُریه من عجائب عظمته مایخبر به بعد هبوطه “(۳)
”خدا ہرگز کوئی مکان نہیں رکھتا اور نہ اس پر کوئی زمانہ گزرتاہے لیکن وہ چاہتا تھا کہ فرشتوں اور آسمان کے باشندوں کو اپنے پیغمبر کی تشریف آوری سے عزت بخشے اور انہیں آپ کی زیارت کا شرف عطاکرے نیزآپ کو اپنی عظمت کے عجائبات دکھائے تاکہ واپس آکران کولوگوں کے سا منے بیان کریں“۔(۴)
____________________
(۱)تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۵
(۲)مذکورہ کتاب کے فارسی ترجمہ کا نام ہے “ محمد پیغمبری کہ از نوباید شناخت “ صفحہ ۱۲۵
(۳) تفسیر برہان ، جلد ۲، صفحہ ۴۰۰
(۴) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۶