معارف الهیہ کا واسطہ، اور حضرت میکائیل(ع) مادی ضروریات یعنی افاضہ ارزاق کا واسطہ ہیں، بنا بر ایں علوم وارزاق کے خزائن کی کلید آپ(ع) کے اختیار میں ہے۔(۱) سنی او رشیعہ روایت میں ظهور کے وقت آپ(ع) کی صورت مبارک کو کوکب درّی سے تشبیہ دی گئی ہے(۲) اور ((له هیبة موسیٰ وبهاء عیسی وحکم داوود وصبر ایوب )) ۳،امام علی رضا(ع) کی حدیث کے مطابق ایسے لباس میں ملبوس ہوں گے کہ ((علیه جیوب النور تتوقد من شعاع ضیاء القدس ))(۴)
۵ ۔الغیبة میں شیخ طوسی اور صاحب عقدالدرر کی روایت کے مطابق آپ(ع) عاشور کے دن ظهور فرمائیں گے(۵) تاکہ( يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِا فَْٔوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِه وَلَوْ کَرِهْ الْکَافِرُوْنَ ) (۶) کی تفسیر ظاہر ہو۔ اور امام حسین علیہ السلام کے پاکیزہ خون سے آبیاری شدہ اسلام کا شجرہ طیبہ آپ کی برکت سے ثمر بخش بنے اور یہ آیت کریمہ( وَمَنْ قُتِلَ مَظُلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّه سُلْطَانًا ) (۷) اپنے عالی ترین مصداق سے منطبق ہو۔
امام زمانہ (علیہ السلام) کی طولانی عمر
ممکن ہے کہ طول عمر، سادہ لوح افراد کے اذهان میں شبهات ایجاد کرنے کا سبب ہو لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک انسان کی عمر کا ہزاروں سال تک طولانی ہونا، نہ تو عقلی طور پر محال ہے او رنہ ہی عادی اعتبار سے، کیونکہ محال عقلی یہ ہے کہ دو نقیضین کے اجتماع یا ارتفاع کا سبب ہو،مثا ل کے طورپر جیسا کہ ہم کہیں کہ کوئی بھی چیز یا ہے یا نہیں ہے، یا مثلاًعدد یا جفت ہے یا طاق،کہ ان کا اجتماع یا ارتفاع عقلا محال ہے اور محال عادی یہ ہے کہ عقلی اعتبار سے تو ممکن ہو، لیکن قوانینِ طبیعت کے مخالف ہو مثال کے طور پر انسان آگ میں گر کر بھی نہ جلے۔
انسان کا ہزار ها سال طول عمر پانا، اور اس کے بدن کے خلیات کا جوان باقی رہنا نہ تو محال عقلی ہے اور نہ محال عادی، لہٰذا اگر حضرت نوح علی نبینا وآلہ وعلیہ السلام کی عمر اگر نو سو پچاس سال یا اس سے زیادہ واقع ہوئی ہے تواس سے زیادہ بھی ممکن ہے اور سائنسدان اسی لئے بقاء حیات ونشاط جوانی کے راز کی جستجو میں تھے اور ہیں۔ جس طرح علمی قوانین وقواعد کے ذریعے مختلف
دہاتوں کے خلیات کی ترکیب میں تبدیلی سے انہیں آفات اور نابود ہونے سے بچایا جاسکتا ہے اور لوہے کو کہ جسے زنگ لگ جاتا ہے اور تیزاب جسے نابود کر دیتا ہے، آفت نا پذیر طلائے ناب بنایاجا سکتا ہے، اسی طرح علمی قوانین وقواعد کے ذریعے ایک انسان کی طولانی عمر بھی عقلی وعملی اعتبار سے ممکن ہے، چاہے ابھی تک اس راز سے پردے نہ اٹہے ہوں۔
اس بحث سے قطع نظر کہ امام زمان(ع) پر اعتقاد، خداوند متعال کی قدرت مطلقہ، انبیاء کی نبوت اور معجزات کے تحقق پر ایمان لانے کے بعد کا مرحلہ ہے، اسی لئے جو قدرت ابراہیم(ع) کے لئے آگ کوسرد اور سالم قرا ر دے سکتی ہے، جادوگروں کے جادو کو عصائے موسی کے دہن کے ذریعے نابود کر سکتی ہے، مردوں کو عیسیٰ کے ذریعے زندہ کر سکتی ہے اور اصحاب کہف کو صدیوں تک بغیر کهائے پیئے نیند کی حالت میں باقی رکھ سکتی ہے ، اس قدرت کے لئے ایک انسان کو ہزاروں سال تک جوانی کے نشاط کے ساته اس حکمت کے تحت سنبهال کر رکھنا نهایت ہی سهل اور آسان ہے کہ زمین پر
____________________
۱ عقدالدرر الباب الخامس وفصل اول الباب الرابع،ص ۶۵ ؛ الامالی للمفید، ص ۴۵ ۔
۲ فیض القدیر، ج ۶، ص ۳۶۲ ، نمبر ۹۲۴۵ ۔کنزالعمال، ج ۱۴ ، ص ۲۶۴ ، نمبر ۳۸۶۶۶ ۔
ینابیع المودة، ج ۲، ص ۱۰۴ ، ج ۳، ص ۲۶۳ ، اور اہل سنت کی دوسری کتابیں۲۲۲ وج ۵۱ ،ص ۸۰ اور دوسرے موارد اور شیعوں کی دوسری کتابیں۔ ، بحار الانوار، ج ۳۶ ، ص ۲۱۷
۳ بحار الانوار،ج ۳۶ ، ص ۳۰۳ ۔
۴ بحار الانوار، ج ۵۱ ، ص ۱۵۲ ۔”اس پر نور کے اس طرح لباس ہیں جو قدس کی روشنی سے روشن رہتے ہیں“۔
۵ الغیبة، ص ۴۵۲ و ۴۵۳ ، عقدالدرر الباب الرابع، فصل اول ، ص ۶۵ ۔
۶ سورہ صف، آیت ۸۔”یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منه سے بجها دیں اور الله اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ناگوار کیوں نہ ہو“۔
۷ سورہ اسراء، آیت ۳۳ ۔”جو مظلوم قتل ہوتا ہے ہم اس کے ولی کو بدلہ کا اختیار دے دیتے ہیں“۔