6%

۳۔ایسا موجود جو خود محدودہو اور جو آدم کو باغ کے درختوں میں گم کردے اور کہے :کهاں ہو؟ تاکہ آدم کی آواز سن کر اسے ڈهونڈے، باغ کے درخت جس کے دیکھنے میں مانع ہوں، وہ رب العالمین، عالمِ السر والخفیات، خالق کون ومکان اور زمین وآسمان پر محیط کیسے ہوسکتاہے ؟!

جب کہ اس کے مقابلے میں ہدایتِ قرآن کا نمونہ یہ ہے( وَعِنْدَه مَفَاتِيْحُ الْغَيْبِ لاَ يَعْلَمُهَا إِلاَّ هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ إِلاَّ يَعْلَمُهَا وَلاَ حَبَّةٍ فِی ظُلُمَاتِ اْلا رَْٔضِ وَلاَ رَطْبٍ وَّلاَيَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُّبِيْنٍ ) (۱)

۴ ۔انجیل کی مذکورہ بالا آیات خدا کی توحید اور تقدیس کی جانب ہدایت کرنے کے بجائے کہ( لَيْس کَمِثْلِه شَیْءٌ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ) (۲) اس کی ذات میںشرک اور تشبیہ پر دلالت کرتی ہیں اور کہتی ہیں :”خدا نے کها :نیک وبد کی معرفت حاصل کر کے انسان یقینا ہماری طرح ہوگیا ہے۔“

۵ ۔پروردگار عالم کا تخلیق آدم سے پشیمان ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کے انجام سے جاہل تھا۔ کیا پروردگار عالم کو جاہل سمجهنا، کہ جس کا لازمہ محدودیت ذات ومخلوقیت خالق اور نورِ علم وظلمت جهل کی حق متعال کے ساته ترکیب ہے، انسان کو خدا کی جانب ہدایت کرنے والی آسمانی کتاب سے ممکن ہے؟!

جب کہ ہدایت قرآن یہ ہے کہ( ا لَٔاَ يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ) (۳) ( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی اْلا رَْٔضِ خَلِيْفَةً قَالُوْا ا تَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَال إِنِّیْ ا عَْٔلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ ) (۴)

۶ ۔پروردگا ر عالم سے حزن وملال کو منسوب کیا جو جسم، جهل اور عجز کا لازمہ ہیں اور اس بارے میں ہدایت قرآن یہ ہے( سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَاْلاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُخ لَه مُلْکُ السَّمَاوَات وَاْلا رَْٔضِ يُحْی وَيُمِيْتُ وَهُو عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِيْرٌخ هُوَ اْلا ؤََّلُ وَاْلآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِکُلِّ شَیَءٍ عَلِيْمٌ ) (۵)

عیسائیوں کے بعض مخصوص عقائد

۱۔رسالہ اول یوحنا رسول باب پنجم: ”جس کا عقیدہ یہ ہوکہ عیسیٰ مسیح ہے، خدا کابیٹا ہے اور جو والد سے محبت کرے اس کے بیٹے سے بھی محبت کرتاہے کون ہے جو دنیا پر غلبہ حاصل کرے مگر وہ جس کا عقیدہ یہ ہو کہ عیسیٰ خدا کا بیٹا ہے۔ یہ وہی ہے جو پانی اور خون سے آیا یعنی عیسیٰفقط پانی سے نہیں بلکہ پانی، خون اور روح سے ہے، جو گواہی دیتی ہے، کیونکہ روح حق ہے ۔ تین ہیں جو گواہی دیتے ہیں یعنی روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہیں ۔“

۲۔انجیل یوحنا، باب اول، پهلی آیت سے :”ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خدا کے پاس تھا اور کلمہ خدا تھا، وہی ابتدا میں خدا کے پاس تھا ۔ تمام چیزیں اسی کے لئے خلق کی گئیں۔ موجودات نے اس کے سوا کسی اور سے وجود نہیں پایا۔ اس میں زندگی تھی اور زندگی انسان کا نور تھی، نور کی درخشش تاریکی میں ہوتی ہے، اور تاریکی اس کو نہ پاسکی ۔ خدا کی جانب سے یحییٰ نامی ایک شخص بھیجا گیا،

وہ گواہی دینے آیا تاکہ نور پر گواہی دے اور سب اس کے وسیلے سے ایمان لائیں ۔ وہ خود نور نہ تھا بلکہ نور پر گواہی دینے آیاتها ۔ وہ حقیقی نور تھا جو ہر انسان کو منور کر دیتا ہے اور اسے دنیا میں آنا تھا، وہ کائنات میں تھا اور کائنات کو اسی کے لئے خلق کیا گیا اور کائنات نے اسے نہ پہچانا، اپنے خواص کے پاس گیا، اس کے خواص نے بھی اسے قبول نہ کیا، لیکن جنہوں نے اسے قبول کیا انہیں قدرت عطا

____________________

۱ سورہ انعام، آیت ۵۹ ۔”اور اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے اور وہ خشک و تر سب کا جاننے والا ہے کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو اسے اس کا علم ہے۔ زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو کتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ہو“۔

۲ سورہ شوریٰ، آیت ۱۱ ۔”اس کا جیسا کوئی نہیں ہے وہ سب کی سننے والا ہے اور ہر چیز کا دیکھنے والا ہے“۔

۳ سورہ ملک، آیت ۱۴ ۔”اور کیا پیدا کرنے والا نہیں جانتا ہے جب کہ وہ لطیف بھی ہے اورخبیر بھی ہے“۔

۴ سورہ بقرہ، آیت ۳۰ ۔”اے رسول! اس وقت کو یاد کرو جب تمهارے پروردگار نے ملائکہ سے کها کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انهوں نے کها کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین میں فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو“۔

۵۔”محو تسبیح پروردگار ہے ہر وہ چیز جو زمین وآسمان میں ہے اور وہ پروردگار صاحب /۲/ ۵ سورہ حدید ، آیت ۳

عزت بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے۔آسمان و زمین کا کل اختیار اسی کے پاس ہے اور وہی حیات و موت کا دینے والا ہے اور ہر شئے پر اختیار رکھنے والا ہے۔وہی اول ہے وہی آخر وہی ظاہرہے وہی باطن اور وہی ہر شئے کا جاننے والا ہے“۔