6%

۷۔قرآن کی علمی اور عملی تربیت :

اگر کسی کا دعوٰی ہو کہ وہ تمام اطباء جهان سے بڑا ہے تو یہ دعوٰی ثابت کرنے کے لئے اس کے پاس دو راستے ہیں :

یا تو علم طب سے متعلق ایسی کتاب پیش کرے کہ اس کی طرح امراض کے اسباب، دواؤں اور علاج کو پهلے کسی نے ذکر نہ کیا ہو۔

یا پھر ایسے مریض کو جس کے تمام اعضاء وجوارح بیماریوں میں مبتلا ہوں، تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آچکے ہوں اور وہ مرنے کے قریب ہو، اگر اس کے سپرد کردیا جائے تو وہ ایسے مریض کو صحت وسلامتی کا لباس پهنا دے۔

انبیاء علیهم السلام، افکار وروح کے طبیب اور امراض انسانیت کے معالج ہیں۔

ان میں سرفهرست پیغمبر اسلام (ص) کی ذات اطهر ہے، جس کی علمی دلیل قرآن جیسی کتاب ہے جو انسان کے فکری، اخلاقی اور عملی امراض کے اسباب وعلاج میں بے مثال ہے اورہدایت قرآن کی بحث میں مختصر طور پر جس کے چند نمونے ذکر کئے گئے ہیں اور عملی دلیل یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) بد ترین امراضِ انسانیت میں مبتلا ایک معاشرے میں مبعوث ہوئے جن کے افراد فکری اعتبار سے اس حد تک گر چکے تھے کہ ہر قبیلے کے پاس اپنا ایک مخصوص بت تھا، بلکہ گهروں میں افراد اپنے لئے کجهور اور حلوے سے معبود بناتے تھے، صبح سویرے ان کے سامنے سجدہ بجا لاتے اور بهوک کے وقت ان ہی معبودوں کو کها لیا کرتے تھے۔

معرفت اور ایمان کے مرہم کے ذریعے ناسور زدہ افکار کا ایسا علاج کیا کہ وہ لوگ خالق جهاں کی تعریف ان الفاظ میں کرنے لگے( اَللّٰهُ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ هُوَالْحَیُّ الْقَيُّوْمُ لاَ تَا خُْٔذُه سِنَةٌ وَّلاَ نَوْمٌ لَّه مَافِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلا رَْٔضِ مَنْ ذَا الَّذِی يَشْفَعُ عِنْدَه إِلاَّ بِإِذْنِه يَعْلَمُ مَا بَيْنَ ا ئَْدِيْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِنْ عِلْمِه إِلاَّ بِمَا شَاءَ وَسِعَ کُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَاْلا رَْٔضَ وَلاَ يَو دُُٔه حِفْظُهُمَا وَ هو الْعَلِیُّ الْعَظِيْمُ ) (۱) اور اس خالق حقیقی کے سامنے سجدہ ریز ہوکر کهنے لگے ((سبحا ن ربی الاعلی وبحمده ))

باہمی الفت کے اعتبار سے حیوانات سے زیادہ پست تھے کہ باپ اپنے ہی هاتهوں اپنی بیٹی کو نهایت ہی سنگدلی سے زندہ دفن کردیتا تھا۔(۲) اس درندہ صفت قوم میں باہمی الفت کو اس طرح زندہ کیا کہ مصر کی فتح کے بعد جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ایک خیمے میں پرندے نے گهونسلا بنایا ہوا ہے تو واپس پلٹتے وقت اس خیمے کو وہیں پر رہنے دیا کہ کہیں پرندے کے بچے اور گهونسلا ویران نہ ہوجائیں اور اسی لئے وہاں آباد ہونے والے شهر کا نام ”فسطاط“ رکھا گیا۔(۳)

فقراء کے مقابلے میں اغنیاء کے اظهارِ قدرت وگستاخی کو اس طرح دور کیا کہ ایک دن جب آنحضرت (ص) کی خدمت میں ایک مالدار شخص بیٹها تھا، ایسے میں ایک نادار شخص آکر اس کے ساتھ بیٹه گیا، اس مالدار شخص نے اپنا دامن ہٹا لیا اور جب متوجہ ہوا کہ آنحضرت (ص) یہ سب دیکھ رہے ہیں، کهنے لگا : یا رسول الله (ص) !میں نے اپنی آدہی ثروت اس غریب کو دی، اس غریب نے کها :

مجھے قبول نہیں ہے،کہیں میں بھی اس مرض میں مبتلا نہ ہوجاؤں جس میں یہ مبتلا ہے ۔(۴)

یہ کیسی تربیت تھی کہ مالدار کو ایسی بخشش اور نادار کو اتنی بلند نظری عطا کی اور امیر کے تکبر کو تواضع اور غریب کی ذلت کو عزت میں تبدیل کر دیا ۔کمزور پر طاقتور کے مظالم کا اس طرح قلع قمع کیا کہ امیر المومنین (ع) کی حکومت کے زمانے میں جس وقت مسلمانوں کے خلیفہ کے پاس ایران اور روم کے شهنشاہوں جیسی عظیم فوجی طاقتیں موجود تہیں اور مالک اشتر سپہ سالار تھے، ایک دن جب مالک اشتر ایک سادہ اور عام انسان کی طرح بازار سے گزر رہے تھے تو کسی نے ان کا مذاق

____________________

۱ سورہ بقرہ، آیت ۲۵۵ ۔”الله جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے زندہ بھی ہے اور اسی سے کل کائنات قائم ہے اسے نہ نیند آتی ہے نہ اُنگه آسمانوں اور زمین میں جوکچھ بھی ہے سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کی بارگاہ میں اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کر سکے ۔ وہ جوکچھ ان کے سامنے ہے اور جو پس پشت ہے سب کو جانتا ہے اور یہ اس کے علم کے ایک حصہ کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر وہ جس قدر چاہے ۔ اس کی کرسی علم واقتدار زمین وآسمان سے وسیع تر ہے اور اسے ان کے تحفظ میں کوئی تکلیف بھی نہیں ہوتی وہ عالی مرتبہ بھی ہے اور صاحب عظمت بھی“۔

۲ کافی ج ۲ ص ۱۶۲ ، کتاب الایمان و الکفر ، باب البر بالوالدین، ح ۱۸ ، الجامع لاحکام القرآن، ج ۷، ص ۹۷ ، آیت ۱۴۰

سورہ انعام، اور دوسری کتابیں۔

۳ معجم البلدان ج ۴ ص ۲۶۳ ۔

۴ کافی ج ۲ ص ۲۶۲ ۔