دنیا سے جاتے وقت نہ آپ (ص) نے درہم و دینار چهوڑے، نہ غلام و کنیز اور نہ ہی کوئی بھیڑ اوراونٹ، بلکہ آپ کی زرہ بھی مدینہ کے ایک یہودی کے پاس تھی، جسے آپ (ص) نے گهر والوں کی غذا کے انتظام کے لئے خریدے گئے بیس صاع جو کے بدلے گروی رکھوایا تھا(۱) دو نکات کی طرف توجہ ضروری ہے :
۱۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت (ص) کے مقام ومنزلت اور بے نظیر امانت داری کے ہوتے ہوئے کوئی بھی آپ سے گروی رکھنے کا تقاضا نہیں کرتا تھا، لیکن یہ سمجهانا مقصود تھا کہ قرض کی تحریری دستاویز نہ ہونے کی صورت میں، اسلام کی عظیم ترین شخصیت تک، ایک یہودی کے حق میں بھی قانونِ رہن کا خیال رکہے، جو صاحبِ مال کے لئے وثیقہ ہے ۔
۲۔لذیذ ترین غذائیں فراہم ہونے کے باوجود پوری زندگی جو کی روٹی سے اس لئے سیر نہ ہوئے کہ کہیں آنحضرت کی غذا رعایا کے نادار ترین فرد کی غذاسے بہتر نہ ہو۔
آپ (ص) کے ایثار کا نمونہ یہ ہے کہ وہ بیٹی جس کے فضائل سنی اور شیعہ کتب میں بکثرت ذکر کئے گئے ہیں، قرآن مجید میں مباہلہ(۲) اور تطهیر(۳) جیسی آیات اور حدیث کساء(۴) و عنوان ((سیدة نساء ا هٔل الجنة ))(۵) جیسے بلند مرتبہ مضمون پر مشتمل احادیث جو اس انسان کامل میں ممکنہ کمال انسانی کے مکمل تحقق کی دلیل ہیں، ایسی بیٹی جس کے توسط سے رسول خدا (ص) کی نسل تاقیات باقی رہے گی،
وہ جس کی آغوش میں مطلعِ نجومِ ہدایت اور ائمہ اطهار پروان چڑهتے رہے اور پیغمبر اسلام(ص)کے نزدیک جس کے احترام کا عالم یہ تھا کہ جب بھی آنحضرت (ص)کی خدمت میں تشریف لاتیں آنحضرت(ص) اپنی جگہ پر بٹهاتے اور هاتهوں کا بوسہ لیا کرتے تھے۔(۶) وہ بیٹی جووالد گرامی کی اقتداءمیں محراب عبادت میں اتنا قیام کرتیں کہ دونوں پاؤں پر ورم آجاتا(۷) اور اتنا زیادہ محو عبادت ہونے کے باوجود امیر المومنین(ع)کے گهر اس طرح خانہ داری کرتیں کہ ایک دن جب پیغمبر اسلام(ص)تشریف لائے تو آپ بچے کو دودہ پلانے کے ساته ساته چکی بھی چلا رہی تہیں، آنحضرت (ص) نے آنسوؤں سے تر آنکهوں کے ساته یہ رقت بار منظر دیکھا اور فرمایا:((تعجلی(تجرئی)مرارة الدنیا بحلاوة الآخرة ))(۸)
تو آنحضرت کے جواب میں کها:((یا رسول اللّٰه(ص))! الحمد للّٰه علی نعمائه والشکر للّٰه علی آلائه ))۔ ایسی بیٹی اپنے چکی چلانے کی وجہ سے گٹے پڑے ہوئے هاتهو ں کولے کر والد گرامی کے پاس کنیز مانگنے کے لئے تو آئی لیکن اپنی حاجت بیان کئے بغیرلوٹ گئی اور وہ باپ جو اگر چاہتا تو بیٹی کے گهر میں رزو جواہر کا انبار لگا سکتا تھا، خدمت گزاری کے لئے غلام اور کنیزیں دے سکتا تھا، اس نے خدمت گزارکے بجائے چونتیس مرتبہ تکبیر، تینتیس مرتبہ تحمید اور تینتیس مرتبہ تسبیح تعلیم فرمائی(۹) یہ ہے کردار حضرت ختمی مرتبت(ص) ،کہ اتنے سخت حالات میں زندگی بسر کرنے والی ایسی بیٹی کے مقابلے میں ناداروں کے ساته کس طرح ایثار فرماتے ہیں اور وہ ہے والد گرامی کی صبر کی تلقین کے جواب میں مادی ومعنوی نعمتوں کا شکر بجا لانے والی صدیقہ کبریٰ، جو رضا بقضائے الٰهی میںفنا اور الطاف الهیہ میں استغراق کا ایسا نمونہ پیش کرتی ہے کہ کڑواہٹ کو مٹهاس اور مصیبت
____________________
۱ بحار الانوارج ۱۶ ص ۲۱۹ ۔
۲ سورہ آل عمران، آیت ۶۱ ۔
۳ سورہ احزاب، آیت ۳۳ ۔
۴ الاصابة فی تمییز الصحابة،ج ۴، ص ۴۶۷ ؛ تفسیر الطبری ج ۲۲ ص ۹، آیہ تطهیر کے ذیل میں؛مستدرک صحیحین ؛ ۳۲۳ ، اور دوسری کتب اہل سنت؛کافی ج ۱ ص ۲۸۷ ، ج ۲ ص ۴۱۶ ؛تفسیر قرطبی ج ۱۴ ص ۱۸۳ ؛مسند احمد حنبل ج ۶ ص ۲۹۸
الخصال ص ۵۵۰ ودوسری کتب خاصہ۔
۵ صحیح بخاری، ج ۴، ص ۱۸۳ ، باب علامات البنوة فی الاسلام اور اس کتاب کے دوسرے مقامات؛ صحیح ابن حبان ج ۱۵ ، ص ۴۰۲ ،حدیث نمبر ۶۹۵۲ ، اور اہل سنت کی دوسری کتابیں؛ بحار الانوارج ۲۲ ص ۴۸۴ ، اور شیعوں کی دوسری کتابیں ۔
۶ بحار الانوار ج ۴۳ ص ۲۵ ۔
۷ بحار الانوارج ۴۳ ص ۷۶ ۔
۸ بحار الانوار ج ۴۳ ص ۸۶ ۔(اے میری بیٹی دنیا کی سختیوں کو آخرت کی مٹهاس کے مقابل میں جلدی کرو(برداشت کرو)
۹ بحار الانوارج ۴۳ ص ۸۵ ۔