اور ارادے کے اعتبار سے مقام صبر پر، جو نفس کو مکروہات خدا سے دور اور اس کے پسندیدہ اعمال پر پابند کردینے کا نام ہے، فائز ہو اور یہ دو جملے امام کے علم اور اس کی عصمت کے بیان گر ہیں۔
فرعِ امامت، امرِ خدا کے ذریعے ہدایت کرنا ہے اور امرِ الٰهی کے ذریعے ہدایت سے عالَم خلق اور عالَم امر کے مابین وساطتِ امام ثابت ہوتی ہے اورخود یهی فرع جو اس اصل کا ظہور ہے، امام کے علم وعصمت کی آئینہ دار ہے۔
وہ شجرہ طیبہ جس کی اصل وفرع یہ ہوں، اس کی پرورش قدرت خدا کے بغیر ناممکن ہے،
اسی لئے فرمایا:( وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ ا ئَِٔمَّةً يَّهْدُوْنَ بِا مَْٔرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَکَانُوْا بِآيَاتِنَا يُوْقِنُوْنَ )
دوسری آیت :
( وَإِذِ ابْتَلٰی إِبْرَاهِيْمَ رَبُّه بِکَلِمَاتٍ فَا تََٔمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِی قَالَ لاَ يَنَال عَهْدِی الظَّالِمِيْنَ ) (۱)
امامت وہ بلند مقام ومنصب ہے جو حضرت ابراہیم (ع) کو کٹهن آزمائشوں، مثال کے طور پر خدا کی راہ میں بیوی اور بچے کو بے آب و گیاہ بیابا ن میں تنها چهوڑنے، حضرت اسماعیل کی قربانی اور آتش نمرود میں جلنے کے لئے تیار ہونے، اور نبوت ورسالت وخلت جیسے عظیم مراتب طے کرنے کے بعد نصیب ہوا اور خداوند متعال نے فرمایا( إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ) اس مقام کی عظمت نے آپ علیہ السلام کی توجہ کو اتنا زیادہ مبذول کیا کہ اپنی ذریت کے لئے بھی اس مقام کی درخواست کی تو خداوند متعال نے فرمایا( لاَ يَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِيْن )
اس جملے میں امامت کو خداوند متعال کے عهد سے تعبیر کیا گیا ہے جس پر صاحب عصمت کے علاوہ کوئی دوسرا فائز نہیں ہو سکتا اور اس میں بھی شک وتردید نہیں کہ حضرت ابراہیم(ع) نے اپنی پوری کی پوری نسل کے لئے امامت نہیں چاہی ہو گی کیونکہ یہ بات ممکن ہی نہیں کہ خلیل الله نے عادل پرودرگار سے کسی غیر عادل کے لئے انسانیت کی امامت کو طلب کیا ہو، لیکن چونکہ حضرت ابراہیم (ع) نے اپنی عادل ذریت کے لئے جو درخواست کی تھی،اس کی عمومیت کا دائرہ ذریت کے اس فرد کو بھی شامل کررہا تھا جس سے گذشتہ زمانے میں ظلم سرزد ہوچکا ہو۔لہٰذا خدا کی جانب سے دئے گئے جواب کا مقصد یہ تھا کہ ایسے عادل کے حق میں آپ کی یہ دعا مستجاب نہیں جن سے پهلے گناہ سرزد ہو چکے ہیں بلکہ حکم عقل وشرع کے مطابق امامت مطلقہ کے لئے عصمت وطهارت مطلقہ شرط ہیں۔
تیسری آیت :
( يَا اَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا ا طَِٔيْعُو اللّٰهَ وَا طَِٔيْعُوا لرَّسُوْلَ وَا ؤُْلِی اْلا مَْٔرِ مِنْکُمْ ) (۲)
اس آیت کریمہ میں اولی الامر کو رسول پر عطف لیا گیا ہے اور دونوں میں ایک( اطیعوا ) پر اکتفا کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اطاعت اولی الامر اور اطاعت رسول (ص)کے وجوب کی سنخ وحقیقت ایک ہی ہے اور اطاعت رسول (ص)کی طرح، جو وجوب میں بغیر کسی قید وشر ط اور واجب میں بغیر کسی حد کے، لازم وضروری ہے اور اس طرح کا وجوب ولی امر کی عصمت کے بغیر نا ممکن ہے، کیونکہ کسی کی بھی اطاعت اس بات سے مقید ہے کہ اس کا حکم، الله تعالی کے حکم کا مخالف نہ ہو اور عصمت کی وجہ سے معصوم کا فرمان، خد اکے فرمان کے مخالف نہیں ہو سکتا، لہٰذا اس کی اطاعت بھی تمام قیود وشرائط سے آزاد ہے۔
اس اعتراف کے بعد کہ امامت، در حقیقت دین کے قیام اور مرکزِ ملت کی حفاظت کے لئے،رسول (ص)کی ایسی جا نشینی کا نام ہے کہ جس کی اطاعت وپیروی پوری امت پر واجب ہے(۳) اور( إِن
____________________
۱ سورہ بقرہ، آیت ۱۲۴ ۔”اور اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے کلمات کے ذریعہ ابراہیم کا امتحان لیا اور انهوں نے پورا کر دیا تو اس نے کها کہ ہم تم کو لوگوں کا امام بنا تے ہیں ۔ انهوں نے عرض کیا کہ میری ذریت ؟ارشاد ہوا کہ یہ میر اعهدہ (امامت) ظالمین تک نہیں جائے گا“۔
۲ سورہ نساء، آیت ۵۹ ۔”ایمان لانے والو! الله کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تم میں سے ہیں“۔
۳ شرح المواقف ج ۸ ص ۳۴۵ ۔