2%

آیات ۲۸،۲۹

( کیف تکفرون بالله وکنتم اموتاََ فاحیاکم ج ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیه ترجعون ) ۲۸ ۔

( هوالذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاََ ق چم استویٰ الی السماء فسوهن سبع سموت وهو بکل شیءِِ علیم ) ۲۹ ۔

ترجمہ :

۲۸ ۔ تم خداسے کیونکر کفر کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندگی دی پھر وہ تمہیں مارے گا اور دوبارہ تمہیں زندہ کرے گا اس کے بعد اسی کی طرف لوٹ جاوگے (اس بناء پر نہ تمہاری زندگی تمہاری طرف سے ہے اور نہ موت جوکچھ تمہارے پاس ہے خداہی کی طرف سے ہے )

۲۹ ۔ وہ خدا جس نے زمین کی تمام نعمتوں کو تمہارے لئے پیدا کیا ہے ۔پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانو ں کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز سے

زندگی ایک اسرار آمیز نعمت ہے

مندر جہ بالا دو آیا ت میں قر آن نے نعمات الہی کے ایک سلسلے اورتعجب انگیز خلقت کا ذکر کے انسان کوپروردگار اور اس کی عظمت کی طرف متوجہ کر دیا ہے اور خدا شناسی کے سلسلے میں جو دلائل گذشتہ آیات ( ۲۱ و ۲۲) میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تکمیل کر رہاہے ۔

قرآن یہاں وجودخداکے اثبات کو ایسے نکتے سے شروع کر رہا ہے جس کاکو ئی انکار نہیں کرسکتااور وہ ہے زندگی کا پر اسرار مسئلہ ۔

پہلے کہتا ہے تم خداکا کس طرح انکار کرتے ہو حالا نکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندہ کیا اور تمہارے بد ن پر زندگی کا لباس پہنایا( کیف تکفرون باالله وکنتم امواتاََفاحیاکم ) ۔

قرآن ہم سب کو یاددہانی کرواتا ہے کہ اس سے پہلے تم پتھروں ،لکڑیوں اور بے جا ن موجودات کی طرح مردہ تھے اور نسیم زندگی کاتمہارے کو چے سے گذر نہ تھا لیکن اب تم نعمت حیات وہستی کے مالک ہو ۔تمہیں اعضاء حواس اور ادراک کے کارخا نہ عطا کئے گئے ہیں ۔ یہ وجود حیات تمہیں کس نے عطا کیاہے کیا یہ سب کچھ خود تم نے اپنے آپ کو دیا ہے ۔واضح ہے کہ ہر مصنف مزاج انسان بغیر کسی ترددکے اعتراف کر تا ہے کہ یہ نعمت خود اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ ایک مبداء اعالم وقادر کی طرف سے اسے ملی ہے جو زندگی کے تمام رموزاور پیچیدہ قوانین سے واقف تھا ، انہیں منظم کرنے کی قدرت رکھتا تھا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں حیات وہستی بخشنے والے خداکاانکاکرتے ہیں ۔

آج کے زمانے میں تمام علماء ومحققین پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس اس دنیا میں حیات وہستی سے زیادہ پیچیدہ کو ئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تمام تر عجیب وغریب ترقی کے باوجودجو طبعی علوم فنون کے سلسلے میں انسان کو نصیب ہوئی ہے ابھی تک حیات کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔یہ مسئلہ اس قدر اسرار آمیز ہے کہ لاکھو ں علماء افکار اور کوششیں اب تک اس مسئلے کے ادراک سے عاجز ہوچکی ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ انتھک کوششوں کے سائے میں آئندہ تدریجاََانسان رموز حیات سے آگاہ ہوسکے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیاکوئی شخص اس معاملے کو جو بہت گہرے غوروفکر کا نتیجہ ہے ،اسرارانگیز ہے اور بہت زیادہ علم وقدرت کا محتاج ہے بے شعور طبیعت کی طرف نسبت دے سکتا ہے ،وہ طبیعت جو خود حیات وزندگی سے عاری ہے ۔

یہ وہ مقام ہے جہاں ہم کہتے ہیں کہ اس جہان طبیعت میں حیات وزندگی کا ظہو ر وجو دخدا کے اثبات کی سب سے بڑی سند ہے اور اس مو ضوع پربہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں ۔

قرآن اوپر والی آیت میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسئلے کاسہارا لیتا ہے ہم سر دست اسی مختصر اشارے سے گذرجاتے ہیں ۔قرآن اس نعمت کی یاد دہانی کے بعد ایک واضح دلیل پیش کرتا ہے اور وہ ہے مسئلہ موت ،قرآن کہتا ہے :پھر خدا تمہیں مارے گا( ثم یحییکم )

ا نسان دیکھتاہے کہ اس کے اعزاء واقربااور دوست و احباب یکے بعد دیگرے مرتے رہتے ہیں اور ان کا بے جان جسم مٹی کے نیچے دفن ہوجاتا ہے ۔یہ مقام بھی غوروفکر کا ہے کہ آخر کس نے ان سے وجود کو چھین لیا ہے اگر ان کی زندگی اپنی طرف سے تھی توہمیشہ رہتی یہ جو لے لی گئی ہے اس کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے نے انہیں د ی تھی ۔

زندگی پیدا کرنے والا وہی موت پیدا کرنے والا ہے چنانچہ سورہ ملک کی آیت ۲ میں ہے :

( الذین خلق الموت والحیٰوة لیبکوکم احسن عملاََ )

خداوہ ہے جس نے موت وحیات کو پیدا کیاتاکہ تمہیں حسن عمل کے میدان میں آزمائے ۔

قرآن نے وجود خدا پر ان دو و اضح دلیلوں کو پیش کیا ہے دوسرے مسائل کے لئے روح انسانی کو آمادہ کیا ہے اور بحث سے مسئلہ معاداور موت کے بعد زندگی کو بیان کیا ہے ۔پھر کہتا ہے :اس کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا( ثم یحییکم ) ۔البتہ موت کے بعد یہ زندگی کسی طرح تعجب خیز نہیں کیونکہ پہلے بھی انسان اسی طرح تھا پہلی دلیل (یعنی بے جان کو زندگی عطا کرنا)کی طرف متوجہ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد زندگی ملنے کے مسئلے کو قبو ل کر نامشکل نہیں بلکہ پہلی دفعہ کی نسبت آسان ہے اگر چہ جس ذات کی قدرت لامتناہی ہو اس کے لئے تسہیل ومشکل کو ئی مفہوم نہیں رکھتا)۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں انسانوں کی زندگی میں شک اور تردد تھا حالانکہ پہلی زندگی جو بے جان مو جو دات سے صورت پذیر ہو ئی ہے اسے جانتے ہیں ۔

یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن آغاز سے اختتام تک دفتر حیات کو انسان کے سامنے کھولتاہے اورایک مختصرسے بیان میں زندگی کی ابتداء وانتہا ا ورمسئلہ معاد وقیامت کی اس کے سامنے تصویر کشی کرتا ہے ۔

اس آیت کے آخر میں کہتاہے :پھر اس کی طرف تمہاری باز گشت ہوگی (ثم الیه ترجعون )۔خداکی طرف رجوع کرنے کے معنی وہی خدا کی نعمتو ں کی طرف رجوع کرناہیں یعنی قیامت اور دوبارہ قبروں سے اٹھنے والے دن کی نعمتوں کی طرف رجوع کروگے ۔اسکی شاہد سورہ انعام کی آیت ۳۶ ہے جہاں فرماتاہے ۔( والموتی یبعثهم الله ثم الیه یرجعون )

خدامردو ں کو قبروں سے اٹھائے گا اوراسی کی طرف ان کی بازگشت ہوگی ۔

ممکن ہے خداکی طرف رجوع کرنے سے مقصود کو ئی ایسی حقیقت ہو جو اس سے زیادہ دقیق وباریک ہواور وہ یہ کہ تما م مو جودات نے اپنا سفر نقطہ عدم جو نقطہ صفر ہے سے شروع کیاہے اور تمام موجودات سیرتکامل میں ہیں اور لامتناہی کیطر ف بڑھ رہے ہیں جوذات پروردگار ہے لہذا مرنے سے سیر تکامل کا سلسلہ معطل نہیں ہوتا اوردوسری مرتبہ قیامت میں زندگی کی زیادہ بلند سطح کی طرف یہ تکامل جاری وساری رہے گی۔

نعمت حیات اور مسئلہ مبداء و معاد کے ذکر کے بعد خدا ایک وسیع نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :خدا وہ ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا ہے( هو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ) اس تربیت سے انسانوں کی وجودی قدروقیمت اور زمین کے تمام موجودارت پر ان کی سرداری کو مشخص کیا گیا ہے۔اسی سے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے انسان کو بہت بڑے قیمتی اور عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ تمام چیزوں کو تو اس کے لئے پیدا کیا ہے ۔اب اسے کس لئے پیدا کیا ہے۔انسان اس صحن عالم میں عالی ترین وجود ہے اور صحن عالم میں سب سے زیادہ قدر وقیمت رکھتا ہے۔

صرف یہی آیت نہیں جس مین انسان بلند ترین مقام کے بیان کیا گیا ہے بلکہ قرآن میں بہت سی ایسی آیات ملتی ہیں جو انسان کا تعارف تمامتر مو جودات کا مقصود ہ اصلی کی حیثیت سے کراتی ہیں جیسا کہ سورہ جاثیہ کی آیہ ۱۳ میں آیا ہے :

( وسخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض )

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخر قرار دیا ہے۔

دوسری جگہ اس سے زیادہ تفصیل بیان ہوئی ہے :

( وسخرلکم الفلک و سخر لکم الانهار ) (۱) ( وسخر لکم اللیل والنهار ) (۲) ( وسخر البحر ) (۳) ( و سخر الشمس والقمر ) (۴)

کشتیوں کو تمہارے لئے مسخر کیا گیا اور دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا دن اور رات کو تمہارے لئے مسخر کیا اور سمندروں کو مسخر کیا اور آفتاب و ماہتاب کو بھی تمہارا فرماں بردار اور خدمت گذار قرار دیا ۔(۵)

دوبارہ توحید کے دلائل کی طرف لوٹتے ہوئے کہتا ہے :پھر خدا وند عالم آسمانوں ن کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانون کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے( ثم استوی الی السماء فسواهن سبع سمٰوٰت و هو بکل شیء علیم ) ۔

لفظ” استوی “مادہ “استواء“سے لیا گیا ہے لغت میں اس کے معنی ہیں احاطہ کامل ، تسلط اور خلقت وتدبیر پر مکمل قدرت۔لفظ”ثم“جملہ ”( ثم استوی الی السماء ) “ میں ضروری نہیں کہ تاخیر زمانی کے معنی میں ہو بلکہ ہوسکتا ہے اس کے معنی تاخیر بیان اور حقائق کو ایک دوسرئے کے بعد لانا ہو ۔

____________________

(۱)ابراہیم ، آیہ ۳۲

(۲)و ۴ ، ابراہیم ، آیہ ۳۳

(۳) نحل ، آیہ ۱۴

اس سلسلہ میں زیادہ تر بحث اسی تفسیر میں سورہ رعد آیہ ۲ اور سورہ ابراہیم آیات ۳۲ اور۳۳،میں کی گئی ہے ۔