آیت ۵۰
( و اذ فرقنا بکم البحر فانجیناکم واغرقنا اٰل فرعون و انتم تنظرون ) ۵۰
ترجمہ
اور( اس وقت کو یاد کرو )جب ہم نے تمہارے لئے دریا شگافتہ کیا اور تمہیں تو نجات دے دی لیکن فرعونیوں کو غرق کر دیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے
فرعونیوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کا ایک اجمالی اشارہ
گذشتہ آیت میں فرعونیوں کے چنگل سے بنی اسرائیل کے نجات پانے کا ایک اجمالی اشارہ موجود تھا اور محل بحث آیت در اصل اس کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ نجات انہیں کس طرح ملی تھی جو خود ایک نشانی ہے اور پروردگا ر کی بنی اسرائیل پر عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
فرمایا گیا ہے : یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو شق کیا( واذ فرقنا بکم البحر ) تمہیں نجات دی اور فرعونیوں کو غرق کیا جب کہ تم دیکھ رہے تھے( فانجیناکم و اغرقنا اٰل فرعون وانتم تنظرون ) ۔
فرعونیوں کی دریا میں غرقابی اور بنی ا سرائیل کی ان کے چنگل سے نجات کا ماجرا قرآن کی متعدد سورتوں میں ہے منجملہ ان کے اعراف آیہ ۱۳۶ ، انفال آیہ ۵۴ ، اسراء آیہ ۱۰۳ ، شعراء آیہ ۶۶ ، زخرف آیہ ۵۵ اور دخان آیہ ۱۷ سے بعد تک ۔
ان سورتوں میں اس واقعے کی تقریباََ تمام جزئیات کی تشریح کی گئی ہے لیکن مورد بحث آیت میں بنی اسرائیل پر خدا کی نظر رحمت و لطف کے لئے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دینے کے لئے جو نیا نجات بخش آئین ہے صرف اشارہ کیا گیا ہے(۱) ۔
جیسا کہ تفصیل کے ساتھ اس واقعہ کو آپ ان سورتوں میں پڑھیں گے کہ حضرت مو سٰی ایک مدت سے تبلیغ کرنے ، فرعون اور فرعونیوں کو دعوت دینے ، قسم قسم کے معجزات دکھانے اور ان کے قبول نہ کرنے پر مامور ہوئے کہ آدھی رات کے وقت بنی اسرائیل کو لے کر کوچ کر جائیں جب وہ عظیم دریائے نیل کے کنارے پہنچے تو اچانک دیکھا کہ فرعون اور اس کا لشکر ان کے پیچھے آرہا ہے ، بنی اسرائیل اضطراب و وحشت میں گھر گئے ۔ ان کے سامنے دریا اور غرقابی تھی اور پشت پر فرعون کا طاقت ور لشکر جس کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ تھی ۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت موسٰی کو حکم ہوتا ہے کہ وہ عصا دریا پر ماریں ۔ دریا میں مختلف راستے پیدا ہوجاتے ہیں اور بنی اسرائیل کی جمعیت دریا کی دوسری طرف پہنچ جاتی ہے ۔ ادھر سے لشکر مخالف جو ان کا مسلسل پیچھا کر رہا تھا سارے کا سارا دریا میں داخل ہوجاتا ہے دریا کا پا نی مل جاتا ہے اور وہ سب کے سب ہلاک ہوجاتے ہیں لشکر فرعون کے مردوں کے بدن پانی پر تیرنے لگتے ہیں اور بنی اسرائیل اپنی آنکھون سے دیکھتے ہیں کہ دشمن پانی میں غرق ہوگیا
۔ وہ حالت اضطراب و وحشت وہی یہ نجات ہر دو غور و طلب امور ہیں کہ انسان اس راحت و آرام کو جب اضطراب کے بعد دیکھے تو خدا کا شکر ادا کرے ۔
قرآن کہتا ہے کہ یہودیوں سے کہے کہ ہم نے جو تم پر اس قدر لطف وکرم کیا ہے اور تم کو اس وحشت و اضطراب سے رہائی بخشی ہے تو کیوں تم رسول اسلام اور ہمارے دستور احکام کی مخالفت کرتے ہو ۔
اس آیت میں انسانوں کے لئے درس ہے کہ وہ زندگی میں خد ا پر بھروسہ کریں اور اس قوت لازوال پر اعتماد رکھیں اور صراط مستقیم میں کسی سعی و جستجو سے پیچھے نہ رہیں تو سخت ترین مواقع اور مشکلات میں خدا وند عالم ان کا یارومددگار ہوگا اور انہیں نجات دے گا ۔
____________________
۱ مزید شرح تفسیر نمونہ کی جلد ۷ ، سورہ طٰہ اایت ۷۷ کے ذیل میں مطالعہ کریں ۔