2%

آیت ۶۲

( ان الذین آمنوا والذین هادو اوالنصٰر والصٰبئین من آمن باالله والیوم الآ خر وعمل صالحا فلهم اجرهم عند ربهم ولاخوف علیهم ولا هم یحزنون ) ۶۲ ۔

ترجمہ

جو ایمان لائے ہیں (مسلمان)اوریہود نصاری اور صائبین (حضرت یحی ،حضرت نوح یا حضرت ابراہیم کے پیرو کا ر )جو بھی خدا اور آخرت کے دن پرایمان لائے اور عمل صالح بجالائے ان کی جزا واجر ان کے پرور دگار کے ہاں مسلم ہے اور ان کے لئے آئند ہ یاگزشتہ کسی قسم کا خوف وغم نہیں ہے اور ہر دن کے پیروکا ر جو اپنے عہد میں اپنی ذمہ د اریا ں ادا کرتے ہیں ان کے لئے اجر ہے ۔

ایک کلی اصول اور عمومی قانون

بنی اسرائیل سے مربو ط ابحاث میں دراصل قرآن ایک کلی اصول اور عمومی قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ قدرو قیمت حقیقت وواقعیت کی ہے نہ کہ ظاہر یت کہ ۔خداوند عالم کی بارگاہ میں ایمان خالص اور عمل صالح قابل قبول ہے جولوگ ایمان لے آئے ہیں (مسلمان )اسی طرح یہودی ، عیسائی اور صائبین حضرت یحیٰ،حضرت نوح حضرت ابراہیم کے پیرو کا ر )جو بھی خدا اور قیامت کے دن پر ایمان لے آئیں اور نیک عمل انجام دیں ان کا اجر وعوض پرور دگار کے پاس مسلم ہے( ان الذین آمنوا والذین هادوا والنصٰر والصٰبئین من آمن باالله والیوم الآخر وعمل صالحا فلهم اجرهم عند ربهم ) لہذا انہیں آئندہ کا خوف ہے نہ گزشتہ کا غم( ولا خوف علیهم ولا هم یحزنون )

یہ آیت تقریبااسی عبارت کے ساتھ سورہ مائدہ کی آیہ ۶۹ میں آئی ہے ا ور کافی فرق کے ساتھ سورہ حج آیہ ۱۷ میں اس مفہوم کا ذکر ہوا ہے ۔سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت کے بعد کی آیات نشاندہی کرتی ہیں کہ یہودی وعیسائی اتراتے تھے کہ ہمارا دین دیگر ادیان سے بہتر ہے اور وہ جنت کو بلا شرکت غیراپنے لئے مخصوص سمجھتے تھے اورشاید یہی فخر مسلمانوں کی ایک جماعت میں بھی تھا ۔زیر بحث آیت کہتی ہے کہ ظاہری ایمان (اسلام )عمل صالح کے بغیر چاہے مسلمانوں کا ہو یایہود ونصاری یاکسی اور دین کے پیروکاروں کا کوئی قدر وقیمت نہیں رکھتا ۔خدااور قیامت کے دن کی بڑی عدالت پر حقیقت ااورخالص ایمان جو نیکی اور عمل صالح کے ساتھ ہو وہی خدا کی بارگاہ میں قدروقیمت کا حامل ہے ۔صرف یہی پروگرام جزااور اطمینان کاباعث ہے ۔

ایک اہم سوال

بعض بہانہ سازند کورہ بالا آیت کو غلط افکار لے لئے دستاویز کے طور پرپیش کرتے ہیں وہ اسے صلح کل کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر مذہب کے پیرو کو اپنے ہی مذہب پر عمل کرناچاہیئے لہذا ان کے نزدیک ضروری نہیں کہ یہودی ،عیسائی یادوسرے مذہب کے پیروکار آج مسلما ن ہوجائیں بلکہ اگر وہ خدااور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ااورعمل صالح انجام دیں توکافی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے :

ہم واضح طور پر جانتے ہیں کہ قرآنی آیات ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں ۔ قرآن سورہ آل عمران آیہ ۸۵ میں کہتا ہے :

( و من یبتغ غیرالاسلام دینا فلن یقبل منه )

اگر کوئی شخص اسلام کے علاوہ کوئی دین اپنے لئے انتخاب کرے تو وہ ہرگز قابل قبول نہ ہوگا ۔

علاوہ از ایں قرآن یہود و نصاریٰ اور باقی ادیان کے ماننے والوں کو دعوت اسلام دےنے والی آیات سے بھرا پڑا ہے اگر مندرجہ بالا تفسیر صحیح ہو تو یہ قرآن کی بہت سی آیات سے صرےح تضاد ہو گا لہذا ضروری ہے کہ اس آیت کے واقعی اور حقیقی معنی تلاش کئے جائیں ۔

اس مقام پر دو تفسیر یں سب سے زیادہ واضح اور مناسب نظر آتی ہے ۔

( ۱) پہلی یہ کہ اگر یہود و نصاریٰ اور ان جیسے گروہ اپنی کتب کے مضامین پر عمل کریں تو مسلماََ رسول اسلام پر ایمان لے آئیں ، کیونکہ ان کتب ِ آسمانی میں مختلف صفات و علامات کے ساتھ آپ کے ظہور کی بشارت موجود ہے جس کی تفصیل سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۶ کے ذیل میں آئے گی ۔

سورہ مائدہ اایہ ۶۸ میں ہے :( قل یا اهل الکتاب لستم علی شیء حتی ٰ تقیمو ا التوراة و الانجیل وما انزل الیکم )

کہیے کہ اے اہل کتاب ! تمہاری اس وقت تک کوئی قد ر وقیمت نہیں جب تک تم تورات ، انجیل اور جو کچھ پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف نازل ہوا ہے اسے قائم اور برقرار نہ رکھو ( اور اس میں سے ایک رسول اسلام پر ایمان لانا ہے جن کے ظہور کی بشارت تمہاری کتب میں آچکی ہے )۔

( ۲) دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کی نظر ایک سوال کی طرف ہے جو ابتد ائے اسلام میں بہت سے مسلمانوں کو مدینہ میں در پیش تھا وہ اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر راہ حق و نجات فقط اسلام ہے تو ہمارے آباؤ اجداد کا کیا بنے گا ۔ کیا پیغمبر اسلام کو نہ پہچاننے اور ان پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے انہیں سزا و عذاب کا سامنا ہوگا ۔

اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس نے خبر دی کہ جو شخص اپنے زمانے میں اس وقت کے برحق نبی اور کتاب آسمانی پر ایمان لے آیا ہو اور اس نے عمل صالح انجام دیا ہو وہ نجات یافتہ لوگوں میں ہے اور اس کے لئے فکر و تردد کی کوئی بات نہیں ۔

لہذا ظہو ر مسیح سے پہلے کے مومنین اورعمل صالح انجام دینے والے یہودی نجات یافتہ ہیں اور یہی صورت ظہور رسول اسلام سے پہلے کے عیسائی مومنین کی ہے ۔

یہی مفہوم مذکورہ آیت کی شان نزول سے ظاہر ہوتا ہے جس کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے ۔

چند اہم نکات

(۱) حضرت سلمان کی عجیب وغریب سر گذشت : اس آیت کی تفسیر میں جو شان نزول بیان ہوا ہے اسے یہاں ذکر کیا جائے تو مناسب نہ ہوگا ۔

تفسیر جامع البیان ( طبری ) جلد اول میں منقول ہے :

سلمان اہل جندیشا پور میں سے تھے ۔ حاکم وقت کے بیٹے سے ان کی پکی اور نہ ٹوٹنے والی دوستی تھی ۔ایک دن اکٹھے شکار کے لئے جنگل کی طرف گئے ۔ اچانک ان کی نگاہ ایک شخص پر پڑی جو کتاب پڑھنے میں مشغول تھا ۔ انہوں نے اس شخص سے اس کتاب کے متعلق کچھ سوالات کئے تو راہب نے ان کے جواب میں کہا : یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور اس کتاب میں زنا ، چوری اور لوگوں کا مال ناحق کھانے سے روکا گیا ہے ۔ یہ وہی انجیل ہے جو عیسیٰ مسیح پر نازل ہوئی ہے ۔راہب کی گفتگو نے ان کے دل پر اثر کیا اور بہت تحقیق کے بعد وہ دونوں اس کے دین کے پیرو ہوگئے ۔ اس نے انہیں حکم دیا کہ اس سر زمین کے لوگوں کی ذبح کی ہوئی بھیڑ بکریوں کا گوشت حرام ہے ۔

سلمان اور حاکم وقت کا بیٹا روزانہ اس سے مذہبی مسائل سیکھتے تھے ۔ عید کا دن آگیا ۔حاکم نے ایک دعوت کا احتمام کیا جس میں اشرا ف اور بزرگان شہر کو دعوت دی گئی اور اس سلسلے میں اس نے اپنے بیٹے سے بھی خواہش کی کہ وہ اس دعوت میں شرکت کرے لیکن اس نے قبول نہ کی ۔ اس نے بہت اصرار کیا تو لڑکے نے بتایا کہ یہ غذا میرے لئے حرام ہے ۔ اس نے پوچھا تمہیں یہ حکم کس نے دیا ہے اس پر اس نے راہب کا تعارف کرایا ۔ حاکم نے راہب کو بلوایا اور اس سے کہا : چونکہ قتل ہماری نگاہ میں ایک بہت بڑا اور برا کام ہے لہذا ہم تمہیں قتل نہیں کرتے لیکن تم ہمارے علاقہ سے نکل جاؤ ۔

سلمان اور ان کے دوست نے اس موقع پر اس راہب سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات کا پروگرام ” دیر موصل “ میں طے پایا ۔

راہب کے چلے جانے کے بعد سلمان چند روز تو اپنے با وفا دوست کے منتظر رہے اور وہ بھی سفر کی تیاری میں سرگرم تھا لیکن سلمان آخر کار زیادہ صبر نہ کر سکے اور چل پڑے

موصل کے گرجے میں سلمان بہت زیادہ عبادت کرتے تھے راہب مذکور جو اس گرجے کا مالک تھا اس نے سلمان کو زیادہ عبادت سے روکنا چاہا اور کہا : تم ناکارہ ہی نہ ہوجاؤ ، لیکن سلمان نے اس سے سوال کیا کہ زیادہ عبادت کی فضیلت زیادہ ہے یا کم عبادت کی ؟ تو اس نے کہا فضیلت تو زیادہ عبادت ہی کی زیادہ ہے ۔

اس کے بعد وہ راہب جو گرجے کا مالک تھا اور وہاں پر موجود دوسرے راہبوں جتنی عبادت نہیں کر سکتا تھااس گرجے سے دوسری جگہ چلا گیا اور گرجے کے عالم کو سلمان کے بارے میں سفارش کر گیا ۔

کچھ عرصہ بعدگرجے کا وہ عالم بیت المقدس کی زیارت کے ارادے سے چلا اور سلمان کو بھی اپنے ہمراہ لے گیا ۔ وہاں اس نے سلمان کو حکم دیا کہ دن میں علمائے نصاریٰ کے درس میں جائیں اور تحصیل علم و دانش کریں ۔ وہ درس وہیں مسجد میں منعقد ہوتے تھے ۔

ایک دن اس عالم نے سلمان کو رنجیدہ پایا تو اس کا سبب دریافت کرنے لگا ۔ سلمان نے جواب میں کہا: نیکیاں تو گذشتہ لوگوں کے نصیب میں تھیں جو پیغمبر ان خدا کی خدمت میں رہتے تھے ۔ عالم دیر نے اسے بشارت دی کہ انہی دنوں ملت عرب میں ایک پیغمبر ظہور کرنے والا ہے جو تمام انبیاء سے برتر و بالا ہے ۔ عالم مذکور نے مزید کہا : میں بوڑھا ہو گیا ہوں ، مجھے امید نہیں کہ میں انہیں مل سکوں لیکن تم جوان ہو تم انہیں پاسکو گے ۔

مزید کہنے لگا : اس پیغمبر کی کئی ایک نشانیاں ہیں ۔ ان میں سے خاص نشانی اس کے کندھے پر ہے وہ صدقہ نہیں لیتا ہدیہ قبول کرتا ہے ۔

موصل کی طرف واپسی کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کے نتیجے میں سلمان سے عالم دیر کہیں بیابان میں کھو گیا ۔

حلب کے دو عرب قبیلے وہاں پہنچے ۔ انہوں نے سلمان کو قید کر لیا اور اونٹ پر سوار کرکے مدینہ لے آئے اور انہیں قبیلہ ” جرینہ “ کی ایک عورت کے ہاتھ بیچ دیا ۔

سلمان اور اس عورت کا ایک غلا م باری باری اس عورت کا گلہ روزانہ چرانے کے لئے جاتے تھے سلمان نے اس مدت میں کچھ رقم جمع کرلی اور پیغمبر اسلام کی بعثت کا انتظار کرنے لگا ۔ ایک روز وہ ریوڑ چرانے میں مشغول تھے کہ ان کا ساتھی آیا اور کہنے لگا َ: تمہیں معلوم ہے آج ایک شخص مدینہ میں آیا ہے جس کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر ہے اور خدا کا بھیجا ہوا ہے ۔

سلمان نے اپنے ساتھی سے کہا : تم یہاں رہو ، میں ہو کر آتا ہوں ، سلمان شہر میں داخل ہوئے ۔ پیغمبر اکرم کی مجلس میں حاضر ہوئے ،۔ آنحضرت کے گرد چکر لگا رہے تھے اور منتظر تھے کہ پیغمبر کا کرتہ آپ کے کندھے سے کس طرح ہٹے اور آپ کے کندھے کے درمیان مخصوص نشان دیکھ سکیں پیغمبر ان کی خوہش کی طرف متوجہ ہوئے ، آپ نے کرتا اٹھایا تو سلمان نے وہ نشان ( مہر نبوت ) دیکھا ۔ یعنی پہلی نشانی دیکھ لی ۔

پھر وہ بازار چلے گئے ۔ کچھ گوشت اور روٹی خریدی اور رسول اللہ کی خدمت میں لے آئے ۔ پیغمبر نے پوچھا کیا ہے ۔ سلمان نے جواب دیا صدقہ ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں غریب مسلمان کو دے دو تاکہ وہ اسے استعمال کرلیں ۔

سلمان دوبارہ بازار گئے پھر کچھ گوشت اور روٹی خریدی اور پیغمبر اکرم کی خدمت میں لے آئے رسول اللہ نے پوچھا کیا ہے ۔ سلمان نے جواب دیا ہدیہ ہے ۔

آنحضرت نے فرمایا : بیٹھ جاؤ ۔ آنحضرت اور حاضرین نے اس ہدیہ میں سے کھایا ۔

سلمان پر مقصد واضح ہو گیا کیونکہ اسے اپنی تینوں نشانیاں مل گئیں ۔ دوران گفتگو سلمان نے اپنے دوستوں اور، ساتھیوں اور دیر موصل کے راہبوں کے متعلق باتیں کیں ۔ ان کی نماز ، روزہ ، پیغمبر پر ایمان اور آپ کی بعثت کے بارے میں ان کے انتظار کا حال سنایا ۔ کسی نے سلمان سے کہا کہ اگر وہ پیغمبر کو پالیتے تو آپ کی پیروی کرتے ۔

یہ وہ مقام ہے جہاں نبی کریم پرزیر بحث آیت نازل ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ادیان حق پر حقیقی ایمان رکھتے ہیں لیکن وہ پیغمبر اسلام کو نہیں پاسکے انہیں کیا اجر ملے گا ۔

( ۲) صائبین کون ہیں ؟ :

مشہور عالم را غب مفردات میں لکھتا ہے :یہ ایک گروہ ہے جو حضرت نوح کا پیرو کار تھا ۔ان کا ذکر یہود و نصاری ٰ کے ساتھ ساتھ کرنا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ یہ لوگ کسی آسمانی دین کے پیرو تھے اور خداو قیامت پر ایمان رکھتے تھے ۔رہا کہ بعض لوگ ! انہیں مشرک اور ستارہ پرست کہتے ہیں یا بعض اور لوگ انہیں مجوسی کہتے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ حج کی آیت ۱۷ مشرکین اور مجوسیوں کو صائبین کے مد مقابل قرار دیتی ہے ۔ قرآن کے الفاظ یوں ہیں ۔( ان الذین آمنو ا والذین هادو والصٰبئین والنصٰری والمجوس والذین اشرکو ا ) لہذا یہ مجوس اور مشرکین کے علاوہ ایک مستقل گروہ ہے ۔صائبین کون لوگ ہیں

اس بارے میں مفسرین اور ادیان شناس لوگوں کے مختلف اقوال ہیں اور اس لفط( صائبین ) کا اصلی مادہ کیا ہے ۔ اس بارے میں بھی بحث ہے ۔

شہرستانی نے کتاب ”ملل ونحل “ میں لکھا ہے کہ صائبہ ” صباء “ سے لیا گیا ہے کیونکہ یہ گروہ حق سے ٹیڑھا ہو گیا تھا اور یہ لوگ راہ انبیاء سے منحرف ہوگئے تھے ۔

اس بناء پر انہیں ” صائبہ “ کہا گیا ہے ۔

فیومی کی مصباح المنیر میں ہے کہ کہ صباء کا معنی ہے : وہ شخص جو ایک دین سے نکل کر دوسرے دین کی طرف مائل ہوجائے ۔

” فرہنگ دہخدامیں اس بات کی تائید کی گئی ہے کہ کلمہ عبری ہے اس کے بعد لکھا ہے کہ ”صائبین “ جمع ہے ” صابی “ عبری کی اور اصل عبری ( ص ب ع ) سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں پانی میں ڈوب جانا یعنی تعمید کرنے والے ۱

جب اس لفظ کو عربی بنایا گیا تو اس کی ” ع “ ساقط ہوگئی اور ”مفتسلہ “ جو ایک عرصے سے اس آئین کے پیرو کار وں کے ایک مقام کا نام تھا جو خوزستان میں ہے وہ کلمہ” صابی“ کاجامع اور صحیح ترجمہ ہے ۔

جدید اور معاصر محققین بھی اسے عبری لفظ سمجھتے ہیں ۔

” دائرة المعارف “ فرانسیسی ، جلد چھارم صفحہ ۲۳ میں اس لفظ کو عبری قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس لفظ کے معنی پانی کے اندر جانا یا تعمید بیان کئے گئے ہیں ۔

ژسینوس سلمانی کہتا ہے : یہ لفط اگر چہ عبری ہے تاہم احتمال ہے کہ ایسی اصل سے مشتق ہو جس کا معنی ستارہ ہے ۔

” کشاف اصطلاح الفنون “ کا مو‌لف کہتا ہے صائبین ایک گروہ ہے جس کے لوگ فرشتوں کی عبادت کرتے تھے ، زبور پڑھتے تھے اور قبلہ کی طرف منھ کرتے تھے ۔

کتاب ” التنبیہ والاشراف “ ص ۱۶۶۶ پر امثال و حکم کا تذکرہ کرتے ہوئے ابتدا میں کہا گیا ہے کہ زرتشت نے جب مجوس آئین و دین گشتاسب کے سامنے پیش کیا اور اس نے قبول کیا ، اس سے قبل اس ملک کے لوگ ” صفا “ مذہب کے پیرو تھے ۔

اور وہ صائبین تھے ۔ یہ وہ مذہب ہے جسے ” بو ذاسب “ نے ” طہورس “ کے زمانے میں پیش کیا تھا ۔

اس گروہ کے بارے میں اختلافات اور ایسی گفتگو کی وجہ یہ ہے کہ ان کی جمعیت تھوڑی تھی اور وہ اپنے مذہب کو پوشیدہ رکھنے پر مصر تھے اور اس کی دعوت و تبلیغ سے منع کرتے تھے ان کا اعتقاد تھا کہ ان کا مذہب خصوصی ہے عمومی نہیں اور ان کا پیغمبر انہی کی نجات کے لئے مبعوث ہوا ہے اور بس ۔

یہی وجہ ہے کہ ان کی حالت ایک بھیدہی رہی اور ان کی جمعیت بھی روز بروز ختم ہوتی گئی اور یہ بھی کہ ان کے ہاں مفصل غسل اور طولانی تعمیدوں جیسے خاص احکام تھے یہ انہیں سردیوں اور گرمیوں میں انجام دینا پڑتے تھے ۔ وہ اپنے مذہب کے علاوہ کسی سے شادی حرام سمجھتے تھے ۔ ان کے ہاں حتی الامکان رہبانیت اور عورتوں سے ترک ِمباشرت کا تاکیدی حکم تھا اور مسلمانوں سے زیادہ میل جول کی وجہ سے اپنے مذہب کو بدل دیتے تھے ۔

____________________

۱ غسل تعمید عیسائیوں کے ہاں بچوں اور نئے عیسائی ہونے والے کو دیتے ہیں ۔ مترجم