2%

آیات ۱۰۲،۱۰۳

۱۰۲ ۔( وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا اٴُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ اٴَحَدٍ حَتَّی یَقُولاَإِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَتَکْفُرْ فَیَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِهِ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّینَ بِهِ مِنْ اٴَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللهِ وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّهُمْ وَلاَیَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ اٴَنفُسَهُمْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ )

۱۰۳ ۔( وَلَوْ اٴَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ خَیْرٌ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ )

ترجمہ

۱۰۲ ۔ (یہودی) اس کی پیروی کرتے ہیں جو سلیمان کے زمانے میں شیاطین لوگوں کے سامنے پڑھتے تھے سلیمان (نے) کبھی بھی جادو سے اپنے ہاتھ نہیں رنگے اور وہ ) کافر نہیں ہوئے۔ لیکن شیاطین نے کفر کیاہے اور لوگوں کو اس جادو کی تعلیم دی۔ جو بابل کے وہ فرشتوں ہاروت اور ماروت پر نازل ہوا وہ دونوں فرشتے جادو کرنے کا طریقہ لوگوں کو اسے باطل کرنے کے طریقے سے آگاہ کرنے کیلئے سکھاتے تھے وہ کسی کو کوئی بھی چیز سکھانے سے پہلے اسے کہتے تھے کہ ہم تیری آزمایش کا ذریعہ ہیں ، کہیں کافر نہ ہوجانا (اور ان تعلیمات سے غلط فائدہ نہ اٹھانا) لیکن وہ ان دو فرشتوں سے وہ مطالب سیکھتے تھے جن کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال سکیں (نہ یہ کہ اس تعلیم سے جادو کے اثر کو باطل کرنے کے لئے استفادہ کریں ) مگر وہ حکم خدا کے بغیر کبھی کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے۔ وہ صرف انہی حصوں کو سیکھتے جو ان کے لئے نقصان دہ تھے اور انہیں ان کا کوئی فائدہ نہ تھا اور یقینا وہ یہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسے مال و متاع کا خریدار ہو اسے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا اور کاش وہ یہ جانتے کہ کس قدر قبیح اور ناپسندیدہ تھی وہ چیز جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو بیچتے تھے۔

۱۰۳ ۔ اگر وہ توجہ کرتے اور ایمان لے آتے اور پرہیزگاری کو اپنا شیوہ بناتے تو خدا کے پاس جو اس کا بدلہ تھا وہ ان کے لئے بہتر تھا۔

سلیمان اور بابل کے جادوگر

احادیث سے ظاہر ہوتاہے کہ پیغمبر حضرت سلیمان کے زمانے میں کچھ لوگ آپ کے ملک میں سحر و جاد و کا عمل کرنے لگے حضرت سلیمان نے حکم دیا کہ تمام تحریریں اور اوراق جمع کرکے ایک مخصوص جگہ پر رکھ دو (انہیں محفوظ رکھنا شاید اس بناء پر تھا کہ ان میں سحر و جادو کو باطل کرنے کے لئے مفید مطالب بھی تھے)۔

حضرت سلیمان کی رحلت کے بعد کچھ لوگوں نے انہی تحریروں کو باہر نکالا اور جادو کی ترویج شروع کردی ۔ بعض نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور کہنے لگے کہ سلیمان بالکل پیغمبر نہ تھے بلکہ وہ اسی سحر اور جادو کی مدد سے ان کے ملک پر قابض تھے اور اسے وہ خارق عادت امور انجام دیتے تھے۔

بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے بھی ان کی پیروی کی اور جادوگری کے بہت زیادہ دلدادہ ہوگئے یہاں تک کہ تورات سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

جب پیغمبر اسلام نے ظہور فرمایا اور آیات قرآنی کے ذریعے خبردی کہ سلیمان خدا کے پیغمبروں میں سے تھے تو یہودیوں کے بعض احبار و علماء کہنے لگے:

کیا محمد پر حیرت نہیں جو کہتاہے سلیمان پیغمبران خدا میں سے تھا جب کہ وہ تو جادوگر تھا۔

یہودیوں کی یہ گفتگو خدا کے ایک بزرگ پیغمبر پر تہمت و افتراء تھی یہاں تک کہ اس کا لازمی نتیجہ حضرت سلیمان کی تکفیر تھا کیونکہ ان کے کہنے کے مطابق تو سلیمان ایک جادو گر تھے اور غلط طور پر اپنے آپ کو پیغمبر کہتے تھے۔

قرآن انہیں جواب دیتاہے کہ سلیمان ہرگز کافر نہ تھے بلکہ شیاطین اور لوگوں کو جادو سکھانے والے کافر ہوگئے تھے۔

پہلی زیر بحث آیت یہودیوں کی برائیوں کے ایک اور پہلو کا پتہ دیتی ہے۔ وہ یہ کہ انہوں نے خدا کے بزرگ پیغمبر حضرت سلیمان کو جادوگری کا الزام دیاتھا: فرمایا: یہ (یہودی) اس کی پیروی کرتے ہیں جو شیاطین سلیمان کے زمانے میں لوگوں کے سامنے پڑھتے تھے( وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّیَاطِینُ عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ ) ۔

ممکن ہے (و اتبعوا) کی ضمیر پیغمبر اسلام کے ہم عصر یہودیوں ، یا حضرت سلیمان کے زمانے کے یہودیوں یا دونوں کے طرف اشارہ ہو لیکن گذشتہ آیات سے مناسبت کے لحاظ سے یہ پیغمبر اسلام کے ہم عصر یہودیوں کی طرف اشارہ ہے۔

شیاطین سے بھی ممکن ہے سرکش انسان یا جن یا دونوں مراد ہوں ۔

بہر حال اس گفتگو کے بعد قرآن مزید کہتاہے: سلیمان کبھی کافر نہیں ہوئے( و ما کفر سلیمان ) ۔ انہوں نے کبھی نہ جادو کو ذریعہ بنایا اور نہ بلا وجہ اپنی رسالت کا دعوی کیا۔

لیکن شیاطین کافر ہوئے ہیں اور انہی نے جادو کی تعلیم دی ہے( وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا یُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْر ) ۔

پھر وہ مزید کہتاہے کہ انہوں نے اس کی پیروی کی جو بابل کے دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل ہوا( وَمَا اٴُنزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ) ۔

گویا انہوں نے دو طرف سے جادو کی طرف ہاتھ بڑھا یا ایک تو شیاطین کی تعلیم سے جو حضرت سلیمان کے زمانے میں تھے اور دوسرا خدا کے دو فرشتوں ہاروت اور ماروت کے ذریعے سے جو لوگوں کو جادو باطل کرنے کی تعلیم دیتے تھے۔

ان دو خدائی فرشتوں کا مقصد تو صرف یہ تھا کہ وہ لوگوں کو جادو کا اثر زائل کرنے کا طریقہ سکھ ائیں لہذا وہ کسی بھی شخص کو کچھ سکھانے سے پہلے کہہ دیتے تھے کہ ہم تمہاری آزمایش کا ذریعہ ہیں ، کافر نہ ہوجانا (اور ان تعلیمات سے غلط فائدہ نہ اٹھانا)( ومَا یُعَلِّمَانِ مِنْ اٴَحَدٍ حَتَّی یَقُولاَإِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَتَکْفُر ) ۔

یہ دو فرشتے اس زمانی میں لوگوں کے پاس آئے جب جادو کا بازار گرم تھا اور لوگ جادو گروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے اور ان فرشتوں نے جادو گروں کے جادو کو باطل کرنے کا طریقہ لوگوں کو سکھایا۔

چونکہ کسی چیز (مثلا بم) کو بے کار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان پہلے سے اس چیز (مثلا بم کی ساخت، سے آگاہ ہوپھر ہی اسے بیکار کرنے کا طریقہ سیکھے لیکن یہودیوں میں سے غلط فائدہ اٹھانے والوں نے اسے زیادہ سے زیادہ جادو پھیلانے کا ذریعہ بنالیا اور اتنا آگے بڑھے کہ ایک عظیم پیغمبر حضرت سلیمان کو بھی متہم کیا کہ اگر مادل عوامل ان کے زیر فرمان ہیں اور جن و انس ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں تو یہ سب جادو کی وجہ سے ہے۔

بدکار لوگوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ اپنے برے مسلک اور پروگرام کی توجیہ کے لئے بزرگوں کو اسی مسلک کا پیرو ہو نے کا اتہام دیتے ہیں ۔

بہرحال وہ اس خدائی آزمایش میں کامیاب نہ ہوسکے وہ ان دو فرشتوں سے ایسے مطالب سیکھتے تھی جن کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی کے در میان جدائی ڈال سکیں( فَیَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِهِ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِه ) ۔

مگر خدا کی قدرت ان تمام قدرتوں پر حاوی ہے لہذا وہ حکم خدا کے بغیر ہرگز کسی کو نقصان نہیں پہنچاسکتے( وَمَا هُمْ بِضَارِّینَ بِهِ مِنْ اٴَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللهِ ) ۔

انہوں نے اس اصلاحی خدائی پروگرام کی تحریف کردی اور بجائے اس کے کہ وہ اسے اصلاح اور جادو کے مقابلے کا ذریعہ بناتے فساد کا ذریعہ بناڈالا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسے مال و متاع کا خریدار ہو اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہوگا( وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنْ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِی الْآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ )

بے شک کتنی بری اور قبیح تھی وہ چیز جس کے بدلے وہ اپنے آپ کو بیچ رہے تھے اے کاش ان میں علم و دانش ہوتی( وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ اٴَنفُسَهُمْ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ ) ۔

انہوں نے جان بوجھ کر اپنی اور اپنے معاشرے کی سعادت و نیک بختی کو ٹھکرادیا اور کفرو گناہ کے گرداب میں غوطہ زن ہوگئے حالانکہ اگر وہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرتے تو خدا کے ہاں سے جو بدلہ اور ثواب انہیں ملتا وہ ان کے لئے ان تمام امور سے بہتر ہوتا اے کاش وہ متوجہ ہوتے( وَلَوْ اٴَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللهِ خَیْرٌ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ ) ۔

ہاروت اور ماروت کا واقعہ:

بابل میں نازل ہونے والے فرشتوں کے بارے میں لکھنے والوں نے کئی قصے کہانیاں اور افسانے تراشے اور خدا کے ان دو بزرگ فرشتوں کے سر تھوپ دیے حتی کہ انہیں خرافات اور انسانوں کا عنوان بنادیا گیا اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ کسی دانشمند کے لئے اس تاریخی واقعہ کی تحقیق اور مطالعہ بہت مشکل ہوگیا لیکن جو کچھ زیادہ صحیح نظر آتاہے اور عقلی و تاریخی لحاظ سے صحیح ہے نیز مصادر حدیث کے مطابق ہے ، ہم یہاں پیش کرتے ہیں ۔

سرزمین بابل پر سحر اور جادوگری اپنے کمال کو پہنچ چکی تھی اور لوگوں کی پریشانی اور تکلیف کا باعث بن چکی تھی خدانے دو فرشتوں کو انسانی صورت میں مامور کیا کہ وہ جادوں کے عوامل اور اسے باطل کرنے کا طریقہ لوگوں کو سکھائیں تا کہ وہ جادوگروں کے فساد اور شر سے محفوظ رہ سکیں ۔

لیکن یہ تعلیمات بہر حال غلط مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوسکتی ہیں کیونکہ فرشتے مجبور تھے کہ جادوگروں کا جادو باطل کرنے کے لئے پہلے جادو کے طریقے کی تشریح کریں تا کہ لوگ اس طرح اس کی پیش بندی کرسکیں اس وجہ سے ایک گروہ جادو کا طریقہ سیکھنے کے بعد خود جادو گروں کی صف میں شامل ہوگیا اور لوگوں کے لئے نئی زحمت کا سبب بنا حالانکہ وہ فرشتے لوگوں کو تنبیہ کرتے تھے اور ان کے لئے صراحتا کہتے تھے کہ یہ تمہارے لئے ایک طرح کی آزمایش ہے اور یہاں تک کہا کہ اس سے غلط فائدہ اٹھانا ایک طرح کا کفر ہے لیکن پھر بھی وہ لوگ ایسے کاموں میں پڑگئے جو انسانوں کی لئے ضرر اور نقصان کا باعث تھے۔

جو کچھ ہم نے اوپر بیان کیاہے وہ بہت سی احادیث اور اسلامی مصادر سے لیاگیاہے اور عقل و منطق سے بھی اس کی ہم آہنگی آشکار ہے۔ منجملہ ان کی ایک حدیث وہ بھی ہے جو عیون اخبار الرضا میں ہے (ایک طریق سے خود امام علی بن موسی رضا سے اور دوسرے طریق سے امام حسن عسکری سے منقول ہے) یہ حدیث واضح طور پر اس مفہوم کی تائید کرتی ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ بعض مورخین اور دائرہ المعارف (انساٹیکلو پیڈیا) لکھنے والے حضرات یہاں تک کہ بعض مفسرین بھی اس ضمن میں جعلی انسانوں کے زیر اثر آگئے ہیں ۔ بعض لوگوں ۔ میں خدا کے ان دو معصوم فرشتوں کے بارے میں جو کچھ مشہور ہے انہوں نے بھی ذکر کردیاہے۔ کہاجاتا ہے کہ وہ دو فرشتے تھے خدانے انہیں زمین پر اس لئے بھےجا تا کہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اگروہ انسانوں کی جگہ ہوتے تو وہ بھی گناہ سے نہ بچ پاتے اور خدا کی نافرمانی کرتے لہذا وہ دونوں بھی زمین پر اترنے کے بعد بڑے بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ستارہ زہرہ کے بارے میں بھی افسانہ تر اشاگیاہے۔ یہ تمام چیزیں خرافات اور بے بنیاد بکواس ہیں ۔ قرآن ان امور سے پاک ہے اگر مندرجہ بالا آیات کے متن میں ہی غور کیاجائے تو ہم دیکھیں گے کہ قرآن کا بیان ان باتوں سے کوئی ربط نہیں رکھتا۔

(ہاروت) اور (ماروت) الفاظ کی حیثیت سے:

ایک لکھنے والے کے نظریے کے مطابق ہاروت اور ماروت ایرانی الاصل نام ہیں وہ کہتاہے کہ اس نے ارمنی کتاب میں (ہرروت) کا معنی (زرخیزی) اور (مروت) کا معنی (بے موت) دیکھا ہے۔ اور یہ دونوں لفظ کوہ مازلیں (کوہ آرارات) کے دو خداؤں کے نام ہیں ۔ اس کا نظریہ ہے کہ ہاروت و ماروت انہی دو الفاظ سے ماخوذ ہیں ۔ لیکن اس استنباط کے لئے کوئی واضح علامت و دلیل نہیں ہے۔

اور ستا میں ہے:

ہر ورات جو خرداد ہی ہے اور اسی طرح امردات جس کا معنی بے موت ہے جو کہ مرداد ہے۔

دھخدا نے اپنی لغت میں جو کچھ لکھاہے وہ آخری معنی سے کچھ ملتاہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض کے نزدیک تو ہاروت و ماروت بابل رہنے والے دو مردتھے۔

بعض نے تو انہیں شیاطین قراردے دیاہے حالانکہ مندرجہ بالا آیت واضح طور پر ان مفاہیم کو رد کرتی ہے (مگر یہ کہ آیات کی تفسیر و توجیہ اس کے ظاہری مفہوم کے خلاف کردی جائے)۔

فرشتہ انسان کا معلم کیونکر ہوسکتاہے؟

یہاں ایک سوال باقی رہ جاتا ہے کہ قرآن کی آیات کے ظاہری مفہوم اور متعدد روایات کے مطابق جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں ہاروت و ماروت خدا کے دو فرشتے تھے جو جادو گروں کی اذیت و آزار کا مقابلہ کرنے کے لئے لوگوں کو تعلیم دینے آئے تھے، تو کیا فرشتہ انسان کا معلم ہوسکتاہے؟

اس سوال کا جواب انہی احادیث میں مذکور ہے اور وہ یہ کہ خدا نے انہیں انسانوں کی شکل و صورت میں بھیجاتھا تا کہ وہ یہ کام انجام دے سکیں ۔

یہ حقیقت سورہ انعام کی آیت ۸ سے بھی ظاہر ہوتی ہے جہاں فرمایا گیاہے:( و لو جعلنه ملکا لجعلنه رجلا ) (

اور اگر ہم فرشتے کو اپنا رسول بناتے تو اسے بھی مرد کی صورت میں بھیجتے۔

کوئی شخص اذن خدا کے بغیر کسی چیز پر قادر نہیں :

مندرجہ بالا آیت میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ جادوگر اذن پروردگار کے بغیر کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ اس میں جبر و اجبار کا مفہوم نہیں یہ توحید کے ایک اساسی اصول کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اس جہان کی تمام قدرتوں کا سرچشمہ قدرت خداہے۔ یہاں تک کہ آگ کا جلانا اور تلوار کا کاٹنا بھی اس کے اذن و فرمان کی بغیر نہیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ جادوگر عالم آفرینش میں خدا کے ارادے کے برعکس دخیل ہوں اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ خدا کی سلطنت میں کوئی اسے محدود کردے بلکہ یہ تو خواص و آثار ہیں جو مختلف موجودات میں پیدا کئے گئے ہیں بعض ان سے صحیح فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض غلط اور یہ آزاری و اختیار بھی انسانوں کی آزمایش اور ان کے تکامل کے لئے ایک زمینہ ہے۔

جاد و کیاہے اور کس وقت سے ہے:

جادہ کسے کہتے ہیں اور یہ کس زمانے سے وجود میں آیاہے یہ ایک وسیع بحث ہے۔ اتنا کہاجاسکتاہے کہ جادو بہت قدیم زمانے سے لوگوں مین رائج ہے اس کی بالکل صحیح تاریخ دستیاب نہیں ۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کس شخص نے پہلی مرتبہ جادوگری کو وجودد یا تھا۔ لیکن سحر کے معنی اور اس کی حقیقت کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ جادو خارق عادت افعال کی ایک قسم ہے یہ اپنی طرف سے انسانی وجود میں کچھ آثار پیدا کرسکتاہے اور بعض اوقات آنکھوں کا دھوکا اور ہاتھ کی صفائی ہے اور صرف نفسیاتی و خیالی پہلو رکھتاہے۔ لغت میں سحر کے دو معانی مذکور ہیں :

۱ ۔ فریب، طلسم، شعبدہ اور ہاتھ کی صفائی۔ قاموس میں سحر کردن کا معنی لکھاہے دھوکادینا۔

۲ ۔ (کل ما لطف دق) یعنی وہ جس کے عوامل نظر نہ آتے ہوں اور پوشیدہ ہوں ۔

مفردات راغب، جو قرآن کے مفرد الفاظ کے لئے مخصوص ہے، میں تین معانی کی طرف اشارہ ہوا ہے:

۱ ۔ فریب اور حقیقت و واقعیت کے بغیر خیالات جیسے شعبدہ بازی اور ہاتھ کی صفائی۔

۲ ۔ بعض نے ایک معنی اور بھی کیاہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے کچھ وسائل سے بعض اشخاص و موجودات کی ماہیت اور شکل بدل دینا، مثلا انسان کو جادو کے ذریعے حیوانی شکل میں تبدیل کردینا۔ لیکن یہ بات خواب و خیال سے زیادہ نہیں ہے اور اس کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے۔

قرآن مین لفظ سحر اور اس کے مشتقات مختلف سورتوں مثلا طہ، شعراء یونس اعراف و غیرہ میں آئے ہیں اور یہ خدا کے پیغمبروں حضرت موسی حضرت عیسی اور پیغمبر اسلام کے حالات کے ضمن میں ہیں ۔ ان کے مطالعہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کی نظر میں سحر دو حصوں میں تقسیم ہوتاہے:

۱ ۔ وہ مقام جہاں سحر سے مقصود دھوکا، ہاتھ کی صفائی، شعبدہ بازی اور فریب نظر ہے اور کوئی حقیقت نہیں مثلا:( فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِیُّهُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اٴَنَّهَا تَسْعَی )

یوں لگتا تھا جیسے ان (جادوگروں ) کی رسیاں اور لاٹھیاں اس (موسی) کی طرف دوڑ رہی ہوں ۔ (طہ، ۶۶)

ایک اور آیت یوں ہے:( فَلَمَّا اٴَلْقَوْا سَحَرُوا اٴَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ وَجَائُوا بِسِحْرٍ عَظِیم )

جب انہوں نے رسیوں کو پھینکا تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا انہیں خو ف زدہ کردیا۔ (اعراف۔ ۱۱۶)

ان آیات سے واضح ہوتاہے کہ جاد و کی کوئی حقیقت و واقعیت نہیں ہے اور یہ نہیں کہ جادوگر چیزوں میں تصرف کرسکیں اور اپنا اثر باقی رکھ سکیں بلکہ یہ تو ان کے ہاتھ کی صفائی اور فریب نظرہے کہ لوگوں کو حقیقت کے برعکس دکھائی دیتاہے

(ب) قرآن کی بعض آیات سے ظاہر ہوتاہے کہ سحر کی بعض اقسام واقعات اثر انداز ہوتے ہیں ۔ مثلا زیر بحث آیت جس میں ہے کہ وہ جادو سیکھتے تھے تا کہ مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈالیں ۔( فیتعلمون منهما ما یفرقون به بین المرء و زوجه ) ۔

ایک اور بات جو مندرجہ بالا آیات میں تھی کہ وہ ایسی چیزیں سیکھتے جو ان کے لئے مضر ہوتیں اور نفع بخش نہ ہوتیں :( و یتعلمون ما یضرهم و لا ینفعهم )

لیکن یہاں سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا جادو کی تاثیر نفسیاتی پہلو رکھتی ہے یا اس کا جسمانی اور خارجی اثر بھی ممکن ہے۔ زیر بحث آیات میں اس طرف کوئی اشارہ نہیں ۔ اسی لئے بعض کا نظریہ ہے کہ جادو کا اپنا اثر صرف خیالی اور نفسیاتی لحاظ سے ہے۔

ایک اور نکتہ جس کا ذکر یہاں ضروری ہے یہ ہے کہ دیکھنے میں آتاہے کہ جادو کی تمام یا بعض قسمیں ایسی ہیں جن میں چیزوں کے کیمیائی اور طبیعائی خواص سے فائدہ اٹھا کر سادہ لوح عوام کو دھوکا دیاجاتاہے اور انہیں بیوقوف بنایاجاتاہے ۔ مثلا حضرت موسی کے زمانے کے جادو کی تاریخ میں ہے کہ جادو گر اپنی رسیوں اور چھڑیوں میں کسی مخصوص کیمیائی مواد (مثلا احتمال ہے کہ سیماب و غیرہ ہوگا) کا استعمال کیا کرتے تھے اور پھر یہ چیزیں سورج کی تپش یا کسی اور حرارت کے ذریعے حرکت میں آجاتی تھیں اور تماشائی سمجھتے تھے کہ وہ جاندار ہوگئی ہیں ایسا جادو ہمارے زمانے تک میں نایاب نہیں ہے۔

جادو اسلام کی نظر میں

یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا جادو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا اسلام کی نگاہ میں کوئی اشکال نہیں رکھتا۔

اس سلسلے میں تمام فقہاء اسلام کہتے ہیں جادو سیکھنا اور جادوگری کرنا حرام ہے۔

اس ضمن میں اسلام کے بزرگ رہنما ؤں سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جو ہماری معتبر کتب میں منقول ہیں ۔ نمونے کے طور پر ہم یہ حدیث پیش کرتے ہیں :

حضرت علی فرماتے ہیں :

( من تعلم شیئا من السحر قلیلا او کثیرا فقد کفر و کان اخر عهده بربه ) جو شخص کم یا زیادہ جادو سکیھے وہ کافر ہے اور خدا سے اس کا رابطہ اسی وقت بالکل منقطع ہو جائے گا۔

لیکن اگر جادوگر کے جادو کو باطل کرنے کے لئے سیکھنا پڑے تو اس میں کوئی اشکال نہیں بلکہ بعض اوقات کچھ لوگوں پر اس کا سیکھنا واجب کفائی ہوجاتاہے تا کہ اگر کوئی جھوٹا مدعی اس کے ذریعے سے لوگوں کو دھوکادے یا گمراہ کرے تو اس کے جادو کو باطل کیاجاسکے اور اس کا جھوٹ فاش کیاجاسکے۔

جادوگر کا جادو باطل کرنے اور اس کے جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لئے جادو سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ، اس کی شاہد وہ حدیث ہے جو امام صادق سے منقول ہے جویوں ہے:

ایک جادوگر جادو کے عمل کی اجرت اور مزدوری لیتا تھا۔ وہ امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ میرا پیشہ جادوگری ہے اور میں اس کے بدلے اجرت لیتاہوں اور میری زندگی کے اخراجات اسی سے پورے ہوتے ہیں ۔ اسی کی آمدنی سے میں نے حج کیاہے لیکن اب میں توبہ کرتاہوں تو کیا میرے لئے راہ نجات ہے۔ امام صادق نے جواب میں ارشاد فرمایا: جادو کی گرہیں کھول دو لیکن گرہیں باندھو نہیں ۔