7%

آیت ۱۰۸

۱۰۸ ۔( اٴَمْ تُرِیدُونَ اٴَنْ تَسْاٴَلُوا رَسُولَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوسَی مِنْ قَبْلُ وَمَنْ یَتَبَدَّلْ الْکُفْرَ بِالْإِیمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ )

ترجمہ

۱۰۸ ۔ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اس طرح کے (نا معقول) سوال کرو جو اس سے پہلے موسی سے کئے گئے تھے (اور اس بہانے سے ایمان لانے سے روگردانی کرو) ۔ جو شخص ایمان سے کفر تبادلہ کرے اور ایمان کے بجائے اسے قبول کر لے) وہ (عقل و فطرت کی راہ مستقیم سے گمراہ ہوچکاہے۔

شان نزول

کتب تفاسیر میں اس آیت کی شان نزول کے سلسلہ میں مختلف مطالب نظر آتے ہیں اور نتیجہ کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں ۔

۱ ۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ وہب بن زید اور رافع بن حرملہ رسول خدا کے پاس آئے اور کہنے لگے خدا کی طرف سے کوئی خط ہمارے نام پیش کیجئے تا کہ ہم اسے پڑھ کر ایمان لے آئیں یا ہمارے لئے نہریں جاری کیجئے تا کہ ہم آپ کی پروری کریں ۔

۲ ۔ بعض کہتے ہیں کہ عرب کے ایک گروہ نے پیغمبر اسلام سے اسی طرح کے تقاضے کیئے جیسے یہودیوں نے حضرت موسی سے کئے تھے انہوں نے کہا ہمیں ظاہر بظاہر خدا کی نشاندہی کرو کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں ۔ اور ایمان لے آئیں ۔

۳ ۔ بعض نے لکھا ہے کہ ایک گروہ عرب نے پیغمبر اکرم سے تقاضا کیا کہ ان کیلئے ذات افراط سے ایک مخصوص درخت مقرر کردیں ۔ تا کہ وہ اس کی پرستش کرسکیں جیسے بنی اسرائیل کے جاہلوں نے حضرت موسی سے کہاتھا:

اجعل لنا الها کما لهم الهة

ہمارے لئے ایک بت مقرر کردیں جیسے بت پرستوں کے پاس ہیں ۔ (اعراف ۔ ۱۳۸)

مندرجہ بالا آیت ان کے جواب میں نازل ہوئی۔

بے بنیاد بہانے

اس آیت کے مخاطب اگر چہ یہودی نہیں ہیں بلکہ کمزور ایمان والے مسلمان یا مشرکین ہیں لیکن جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ یہ یہودیوں کی سرگذشت سے غیر متعلق بھی نہیں ۔

غالبا قبلہ کی تبدیلی کے بعد کی بات ہے کہ کچھ مسلمانوں اور مشرکین نے یہودیوں کے پرا پیگنڈا کے زیر اثر پیغمبر اسلام سے چند بے محل اور نامعقول تقاضے کئے جن کے نمونے شان نزول میں بیان ہوچکے ہیں ۔ خداوند تعالی انہیں ایسے سوالوں سے منع کرتے ہوئے فرماتاہے: کیاتم چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے وہی نامعقول تقاضے کرو جو اس سے پہلے موسی سے کئے گئے ہیں ، تا کہ ان بہانہ سازیوں سے ایمان سے رخ پھیرسکو( ام تریدون ان تسئلوا رسولکم کما سئل موسی من قبل ) ۔چونکہ ایک طرح سے یہ ایمان سے کفر کا تبادل ہے لہذا مزید فرمایا گیاہے: جو شخص ایمان کی بجائے کفر کو قبول کرے وہ راہ مستقیم سے گمراہ ہوگیاہے( و من یتبدل الکفر بالایمان فقد ضل سواء السبیل ) ۔

یہ اشتباہ نہیں ہونا چاہیئے کہ اسلام علمی اور منطقی سوالات سے منع کرتاہے یا دعوت نبی کی حقانیت سمجھنے کے لئے معجزہ طلبی سے روکتاہے کیونکہ فہم و ادراک اور ایمان کے یہی ذرائع ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ ایسے تھے جو بہانہ سازی اور دعوت پیغمبر سے بچنے کے لئے بے بنیاد سوالات کرتے تھے اور خو د خواہ معجزات کا ذکر کرتے تھے۔ جبکہ پیغمبر کافی دلائل و معجزات ان کے سامنے پیش کرچکے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نئے طور سے آتا اور نئی خارق عادت چیز کا تقاضا کرتا۔ حالانکہ معجزہ اور خارق عادت کوئی بازیچہ اطفال تو نہیں ہے اوہ اس قدر ضروری ہے کہ جس سے پیغمبروں کے کلام کی سچائی کا اطمینان ہوسکے ورنہ پیغمبر معجزات کا کار و بار تو نہیں کرتے کہ وہ ایک طرف بیٹھ جائیں اور ہر آنے والا ان سے معجزہ طلب کرتا رہے۔علاوہ ازیں کبھی تو وہ بالکل نامعقول تقاضے کرتے تھے مثلا خدا کو آنکھ سے دیکھنا یا بت بنا کردینا۔ در حقیقت قرآن لوگوں کو یہ تنبیہ کرنا چاہتا ہے کہ اگر تم اسی طرح کے نامعقول تقاضے کرتے رہے تو تمہارے سر پر بھی وہی عذاب آئے گا جو قوم موسی کے سر پر آیاتھا۔