7%

خدا کی آزمائش ہمہ گیر ہے:

جہان ہستی کا نظام چونکہ تکامل، پرورش اور تربیت کا نظام ہے اور تمام موجودات تکامل کے سفر میں ہیں ۔ درخت اپنی مخفی استعداد پھل کے ذریعے ظاہر کرتے ہیں ۔ طوفان آتے ہیں تو سمندر کی لہریں طرح طرح کی معدنیات کو ظاہر کرتی ہیں جس سے سمندر کی استعداد کا پتہ چلتاہے۔

اس عمومی قانون کے مطابق انبیاء سے لے کر عامة الناس تک تمام لوگوں کی آزمائش ہونا چاہئیے تا کہ وہ اپنی استعداد ظاہر کریں ۔ خدا کے امتحانات کی مختلف صورتیں ہیں بعض مشکل ہیں اور بعض آسان ہیں لہذا ان کے نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ بہرحال آزمائش اور امتحان سب کے لئے ہے۔

قرآن مجید انسانوں کے عمومی امتحان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے:

( اٴَحَسِبَ النَّاسُ اٴَنْ یُتْرَکُوا اٴَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لاَیُفْتَنُون )

کیا لوگوں کا گمان ہے کہ وہ کہیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انہیں یوں ہی چھوڑ دیاجائے گا اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا۔(عنکبوت۔ ۲)

قرآن نے انبیاء کے امتحانات کا بھی ذکر کیاہے، فرماتاہے:( وَإِذْ ابْتَلَی إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ )

خدا نے ابراہیم کا امتحان لیا۔ (بقرہ۔ ۱۲۴)

ایک اور مقام پر ہے:( فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهُ قَالَ هَذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّی لِیَبْلُوَنِی اٴَاٴَشْکُرُ اٴَمْ اٴَکْفُرُ )

جب سلیمان کے پیروکار نے پلک جھپکنے میں دور کی مسافت سے تخت بلقیس حاضر کردیا تو سلیمان نے کہا یہ لطف خدا ہے تا کہ میرا امتحان کرے کہ کیامیں اس کا شکر ادا کرتاہوں کہ کفران نعمت کرتاہوں ۔ (سورہ نمل۔ ۴۰)

آزمائش کے طریقے:

مندرجہ بالا آیت میں ان امور کے چند نمونے بیان ہوئے ہیں جن سے انسان کا امتحان ہوتاہے۔ ان میں خوف ، بھوک، مالی نقصان جان دینا شامل ہیں لیکن آزمائش انہی طریقوں میں منحصر نہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی قرآن میں الہی آزمائش کے کچھ طریقے بیان کئے گئے ہیں ۔ مثلا اولاد، انبیاء، احکام الہی حتی کہ بعض خواب بھی آزمائش ہی کا ذریعہ ہیں ۔ اسی طرح تمام نیکیاں اور برائیاں بھی خدائی آزمائشوں میں شمار ہوتی ہیں :( و نبلوکم بالشر و الخیر ) ۔ (انبیاء۔ ۳۵)

اس بناء پر زیر نظر آیت میں امتحانات کے جو طریقے بیان کئے گئے ہیں ۔ انہی پر بس نہیں بلکہ یہ خدائی آزمائشوں کے واضح نمونے ہیں ۔

ظاہر ہے کہ امتحانا ت کے نتیجے میں لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک جو امتحانات میں کامیاب ہوجائے گا اور دوسرا جورہ جائے گا۔ مثلا اگر کہیں مرحلہ خوف در پیش ہوتو ایک گروہ اپنے تئیں اس سے دور رکھتاہے تا کہ اسے کوئی تھوڑا سا ضرر بھی نہ پہنچے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مسئولیت اور جواب دہی سے بچتے ہیں ۔ دوستی کے وسیلے نکال کریا بہانے بناکر جنگوں سے بھاگ جاتے ہیں ۔ مثلا قرآن میں ان کی بات نقل کی گئی ہے:( نخشی ان تصیبنا دآئرة )

ہم ڈرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ضرر نہ پہنچے۔ (مائدہ۔ ۵۲)

یہ کہہ کر و ہ خدائی ذمہ داری سے روگردانی کرلیتے ہیں ۔

کامیاب ہونے والے وہ لوگ ہیں جو خوف کے عالم میں ڈٹے رہتے ہیں اور ایمان و توکل کے ساتھ بڑھ چڑھ کر اپنے آپ کو جان نثاری کے لئے پیش کرتے ہیں ۔ قرآن میں آیا ہے:

( الَّذِینَ قَالَ لَهُمْ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِیمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَکِیل )

جب لوگ اہل ایمان سے کہتے تھے کہ حالات خطرناک ہیں اور تمہارے دشمن تیارہیں تم عقب نشین ہوجاؤ تو ان کے ایمان و توکل میں اضافہ ہوجاتا اور وہ کہتے ہمارے لئے خدا کافی ہے اور وہ کیسا اچھا کارسازہے۔ (آل عمران۔ ۱۷۳)

مشکلات اور آزمائشی عوامل جن کا ذکر زیر بحث آیت میں آیاہے مثلا بھوک اور مالی و جانی نقصان، ان میں بھی سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ اس سلسلے کے کچھ نمونے متن قرآن میں آئے ہیں جنہیں اپنے مقام پر بیان کیاجائے گا۔

آزمائشوں میں کامیابی کا راز:

یہاں ایک اور سوال سامنے آتاہے اور وہ یہ کہ جب تمام انسان ایک وسیع خدائی امتحان میں شریک ہیں تو ان میں کامیابی کا راستہ کو نساہے۔

محل بحث آیت اس سوال کا جواب دیتی ہی اور قرآن کی کئی ایک دیگر آیات بھی اس مسئلے کو واضح کرتی ہےں ۔ اس سلسلے میں چند باتیں اہم ہیں جو ذیل میں بیان کی جاتی ہیں ۔

۱ ۔ امتحانات میں کامیابی کے لئے پہلا قدم وہی ہے جو اس چھوٹے سے پر معنی جملے میں بیان کیاگیاہے: و بشر الصبرین۔یہ جملہ صراحت کرتاہے کہ اس راہ میں صبر و استقامت کامیابی کی رمز ہے اسی لئے صابرین اور با استقامت لوگوں کو کامیابی کی بشارت دی جارہی ہے۔

۲ ۔ اس جہان کے حوادث، سختیاں اور مشکلیں گزرجانے والی ہیں اور یہ دنیا گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اس امر کی طرف توجہ کامیابی کا دوسرا عامل ہے۔ جسے اس جملہ میں بیان کیاگیاہے:( انا الله و انا الیه راجعون )

ہم خدا کے لئے ہیں اور ہماری بازگشت اسی کی طرف ہے۔

اصولی طور پر بہ جملہ جسے کلمہ( استرجاع) کے نام سے یاد کیاجاتاہے انقطاع الی اللہ یعنی تمام چیزوں اور تمام اوقات میں اس کی ذات پاک پر بھر و سہ کرنا، کے عالی ترین دروس کانچوڑہے۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ بزرگان دین بڑے بڑے مصائب کے وقت قرآن سے الہام لیتے ہوئے یہ جملہ زبان پر جاری کرتے تھے تو یہ اس لئے ہوتاتھا کہ مصائب کی شدت انہیں ہلانہ سکے اور خدا کی مالکیت اور تمام موجودات کی اس کی طرف بازگشت پر ایمان کے نتیجے میں وہ ان تمام حوادث کو گوارا کرلیں اور با استقامت رہیں ۔

امیر المؤمنین علی اس جملے کی تفسیر میں فرماتے ہیں :ان قولنا انا الله اقرار علی انفسنا بالملک و قولنا و انا الیه راجعون اقرار علی انفسنا بالهلک ۔

یہ جو ہم کہتے ہیں انا اللہ تو یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہم اس کی ملکیت ہیں اور یہ جو کہتے ہیں انا الیہ راجعون تو یہ اس کا اقرار ہے کہ ہم فنا اور ہلاک ہوجائیں گے۔

۳ ۔ قوت الہی اور الطاف الہی سے مدد طلب کرنا ایک اور اہم عامل ہے کیونکہ عام لوگ جب حوادث سے دوچار ہوتے ہیں تو توازن بر قرار نہیں رکھ پاتے اور اضطراب میں گرفتار ہوجاتے ہیں لیکن خدا کے دوستوں کا چونکہ واضح پروگرام اور ہدف ہوتاہے لہذا وہ متحیر اور سرگرداں ہونے کی بجائے اطمینان و آرام سے اپنی راہ چلتے رہتے ہیں اور خدا بھی انہیں زیادہ روشن بینی عطا فرماتاہے تا کہ انہیں صحیح راستے کے انتخاب میں اشتباہ نہ ہو جیسا کہ قرآن کہتاہے:

( و الذین جاهدوا فینا لنهدینهم سبلنا )

جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کرتے ہیں ۔

(عنکبوت۔ ۶۹)

۴ ۔ گذشتہ لوگوں کی تاریخ پر نظر رکھنا اور ان کے حالات کو سمجھنا خدائی آزمائشوں میں روح انسانی کی آمادگی اور ان امتحانوں میں کامیابی کے لئے بہت مؤثر ہے۔

انسان در پیش آنے والے مسائل میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کرے تو ان سے مقابلے کی قوت کمزور پڑجاتی ہے لیکن اگر اس حقیقت کی طرف توجہ دی جائے کہ تاریخ کے طویل دور میں سب اقوام کے لئے تمام طاقت فرسا مشکلات اور خداکی سخت آزمائشیں موجود رہی ہیں تو ہر قوم و ملت کے امتحانات کا نتیجہ انسان کی استقامت میں اضافے کا باعث بن سکتاہے۔

اسی بناء پر قرآن مجید پیغمبر کو رغبت دلانے نیز ان کی اور مؤمنین کی روحانی تقویت کے لئے گذشتہ لوگوں کی تاریخ اور ان کی زندگی کے دردناک حوادث کی طرف اشارہ کرتاہے۔ مثلا کہتاہے:( و لقد استهزی برسل من قبلک )

اگر آپ سے طنز و استہزاء کیاجاتاہے تو گھبرائیے نہیں گذشتہ پیغمبروں سے بھی جاہل لوگ ایسا کرتے رہے ہیں ۔ (انعام ۔ ۱۰)

ایک اور مقام پر فرماتاہے:( و لقد کذبت رسل من قبلک فصبروا علی ما کذبوا و اوذوا حتی آتهم نصرنا )

اگر آپ کی تکذیب کی جاتی ہے تو تعجب کی بات نہیں ۔ گذشتہ انبیاء کی بھی تکذیب کی گئی ہے لیکن انہوں نے مخالفین کی اس تکذیب کے مقابلے میں اور جب انہیں آزار و تکلیف پہنچائی گئی پامردی و استقامت دکھائی۔ آخر کار ہماری نصرت و مدد ان تک آپہنچی۔ (انعام ۔ ۳۴)

۵ ۔ اس حقیقت کی طرف متوجہ ہونا کہ یہ تمام حوادث خدا کے سامنے رونما ہورہے ہیں اور وہ تمام امور سے آگاہ ہے پائیداری کے لئے ایک اور عامل ہے۔ جو لوگ کسی سخت مقابلے میں شریک ہوں جب انہیں احساس ہو کہ ہمارے کچھ دوست میدان مقابلہ کے اطراف میں موجود ہیں ، مشکلات برداشت کرنا ان کے لئے آسان ہوجاتاہے اور وہ زیادہ شوق و ذوق سے مشکلات کے مقابلہ کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ۔

جب چند تماشائیوں کا وجود روح انسانی کو اتنا متاثر کرسکتاہے تو اس حقیقت کی طرف متوجہ ہونا کہ خداوند عالم میدان آزمائش میں میری کاوشوں کو دیکھ رہاہے، اس جہاد کو جاری رکھنے کے لئے کس قدر عشق و لولہ پیدا کرے گا۔

قرآن کہتاہے : جب حضرت نوح کو اپنی قوم کی طرف سے نہایت سخت رد عمل کا سامنا ہوا تو انہیں کشتی بنانے کا حکم دیاگیا۔ قرآن کے الفاظ میں :( و اصنع الفلک باعیننا )

ہمارے سامنے کشتی بناؤ۔ (ہود۔ ۳۷)

باعیننا(ہمارے علم کی آنکھوں کے سامنے) اس لفظ نے حضرت نوح کو اس قدر قلبی قوت عطاکی کہ دشمنوں کا سخت رو یہ اور استہزاء ان کے پائے استقلال میں ذراسی بھی لرزش پیدا نہ کرسکا۔

سید الشہداء مجاہدین راہ خدا کے سردار حضرت امام حسین سے یہی مفہوم منقول ہے میدان کربلا میں جب آپ کے کچھ عزیز دردناک طریقے سے جام شہادت نوش کرچکے تو آپ نے فرمایا:

ہون علی ما نزل بی انہ بعین اللہ

میں جانتاہوں کہ یہ سب کچھ علم خدا کی نگاہوں کے سامنے انجام پارہاہے لہذا انہیں برداشت کرنا میرے لئے آسان ہے۔(۱)

____________________

۱- بحار الانوار ، ج۴۵ ص۴۶