25%

تمنّائے کربلا

محمد علی جوہر

بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا

یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا

*

ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار

ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا

*

روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات

جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا

*

جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے

سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا

*

مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے

ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا

*

جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز

اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا

***