تمنّائے کربلا
محمد علی جوہر
بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا
یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا
*
ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار
ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا
*
روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا
*
جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے
سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا
*
مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا
*
جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز
اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا
***