25%

احمد ندیم قاسمی

لب پر شہدا کے تذکرے ہیں

لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں

*

جن پہ گزری ہے ان سے پوچھو

ہم لوگ تو صرف سوچتے ہیں

*

میدان کا دل دہک رہا ہے

دریاؤں کے ہونٹ جل رہے ہیں

*

کرنیں ہیں کہ بڑھ رہے ہیں نیزے

جھونکے ہیں کہ شعلے چل رہے ہیں

*

پانی نہ ملا تو آنسوؤں سے

چُلو بچوں کے بھر دیئے ہیں

*

آثار جوان بھائیوں کے

بہنوں نے زمیں سے چن لیے ہیں

*

بیٹوں کے کٹے پھٹے ہوئے جسم

ماؤں نے ردا میں بھر لیے ہیں

*