احمد ندیم قاسمی
لب پر شہدا کے تذکرے ہیں
لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں
*
جن پہ گزری ہے ان سے پوچھو
ہم لوگ تو صرف سوچتے ہیں
*
میدان کا دل دہک رہا ہے
دریاؤں کے ہونٹ جل رہے ہیں
*
کرنیں ہیں کہ بڑھ رہے ہیں نیزے
جھونکے ہیں کہ شعلے چل رہے ہیں
*
پانی نہ ملا تو آنسوؤں سے
چُلو بچوں کے بھر دیئے ہیں
*
آثار جوان بھائیوں کے
بہنوں نے زمیں سے چن لیے ہیں
*
بیٹوں کے کٹے پھٹے ہوئے جسم
ماؤں نے ردا میں بھر لیے ہیں
*