25%

سلام اُس پر

احمد فراز

حُسین

اے میرے سر بریدہ

بدن دریدہ

سدا ترا نام برگزیدہ

میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے

دشمنوں کے نرغے میں

تیغ در دست دیکھتا ہوں

میں دیکھتا ہوں

کہ تیرے سارے رفیق

سب ہمنوا

سبھی جانفروش

اپنے سروں کی فصلیں کٹا چکے ہیں

گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ہیں

ہوائے جانکاہ کے بگولے

چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ہیں

مسافرانِ رہِ وفا، لٹ لٹا چکے ہیں

اور اب فقط تُو