75%

ہم جیسے

احمد فراز

حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے

کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

*

برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا

تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

*

وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں

جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

*

یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں

یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

*

بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے

سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

*

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں

ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

*

تُو سر بریدہ ہوا شہرِ نا سپاساں میں

زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

*