ہم جیسے
احمد فراز
حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے
کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے
*
برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا
تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے
*
وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں
جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے
*
یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں
یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے
*
بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے
سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے
*
خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے
*
تُو سر بریدہ ہوا شہرِ نا سپاساں میں
زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے
*