مرثیۂ امام
فیض احمد فیض
رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
*
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
*
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے
**
دشمن کی سپہ خواب میں مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
*
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
*
رہ رہ کے بُکا اہلِحرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے
**