حفیظ تائب
رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں
حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں
*
انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود
انہی کے گھر کو میں دارالسلام جانتا ہوں
*
میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز
کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں
*
مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات
سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں
*
نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر
جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں
*
میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں
جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں
*
شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب
جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں
***