مرثیہ
از میر تقی میر
بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار
جاویں گے مارے آنکھوں کے آگے سب ایک بار
*
ناچار اپنے مرنے کا ہو گا امیدوار
ہے آج رات اور یہ مہمان روزگار
*
فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید
*
یک دم کہ تیری ہستی میں ہو جائے گا غضب
سادات مارے جائیں گے دریا پہ تشنہ لب
*
برسوں فلک کے رونے کا پھر ہے یہی سبب
مت آ عدم سے عالمِ ہستی میں زینہار
*
فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید
*
ماریں گے تیر شام کے نامرد سارے لوگ
دیویں گے ساتھ اس کا جنہوں نے لیا ہے جوگ
*