آنسوؤں کے موسم میں
اقبال ساجد
حُسین تیرے لیے خواہشوں نے خوں رویا
فضائے شہرِ تمنّا بہت اداس ہوئی
*
غبارِ ظلم پہ رنگِ شفق بھڑک اٹھا
زمیں پہ آگ بگولا گُلوں کی باس ہوئی
*
غموں کو کاشت کیا آنسوؤں کے موسم میں
یہ فصل اب کے بہت دل کے آس پاس ہوئی
*
وہ پیاس جس کو سمندر سلام کرتے ہیں
ہوئی تو تیرے لبوں سے ہی روشناس ہوئی
*
جو تُو نے خون سے لکھی حُسین وہ تحریر
کتابِ حق و صداقت کا اقتباس ہوئی
*
کبھی بجھا نہ سکے گی ترے چراغ کی لو
کہ جمع تیری امانت ہوا کے پاس ہوئی
*
دکھوں میں ڈوب گئی دشتِ کربلا کی سحر
ہوائے شام ترے غم میں بد حواس ہوئی
***