قتیل شفائی
سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے
پسر ہے جو علی کا اور محمّد کا نواسہ ہے
*
تضاداتِ مشیت دیکھئے، اس کے حوالے سے
جو اپنی ذات میں ہے اک سمندر، اور پیاسا ہے
*
برہنہ سر، لٹی املاک اور کچھ راکھ خیموں کی
مدینے کے سفر کا بس اتنا سا ہی اثاثہ ہے
*
علی اصغر تکے جاتے ہیں اس عالم کو حیرت سے
نہ لوری پیاری امّاں کی، نہ بابا کا دلاسہ ہے
*
کسی نے سر کٹایا اور بیعت کی نہ ظالم کی
سنی تھی جو کہانی، اس کا اتنا سا خلاصہ ہے
*
نہ مانگا خوں بہا اپنا خدا سے روزِ محشر بھی
مگر نانا کی امّت کے لیے ہاتھوں میں کاسہ ہے
*
قتیل اب تجھ کو بھی رکھنا ہے اپنا سر ہتھیلی پر
کہ تیرے شہر کا ماحول بھی اب کربلا سا ہے
*
قتیل اس شخص کی تعظیم کرنا فرض ہے میرا
جو صورت اور سیرت میں محمّد مصطفیٰ سا ہے
***