عبدالحمید عدم
تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین
وہیں تمام ہوئے جملہ کاروبارِ حسین
*
دکانِ صدق نہ کھولو، اگر نہیں توفیق
کہ جاں چھڑک کے نکھرتا ہے کاروبارِ حسین
*
وہ ہر قیاس سے بالا، وہ ہر گماں سے بلند
درست ہی نہیں اندازۂ شمارِ حسین
*
کئی طریقے ہیں یزداں سے بات کرنے کے
نزولِ آیتِ تازہ ہے یادگارِ حسین
*
وفا سرشت بہتّر نفوس کی ٹولی
گئی تھی جوڑنے تاریخِ زر نگارِ حسین
***