فارغ بخاری
حُسین نوعِ بشر کی ہے آبرو تجھ سے
حدیثِ حرمتِ انساں ہے سرخرو تجھ سے
*
ملایا خاک میں تُو نے ستمگروں کا غرور
یزیدیت کے ارادے ہوئے لہو تجھ سے
*
بہت بلند ہے تیری جراحتوں کا مقام
صداقتوں کے چمن میں ہے رنگ و بُو تجھ سے
*
ترے لہو کا یہ ادنیٰ سا اک کرشمہ ہے
ہوئی ہے عام شہادت کی آرزو تجھ سے
*
کبھی نہ جبر کی قوت سے دب سکا فارغ
ملی ہے ورثے میں یہ سر کشی کی خُو تجھ سے
***