سبط علی صبا
جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا
سکونِ قلب کہیں سے بھی دستیاب نہ تھا
*
حصارِ ظلم کی بنیاد کو اکھاڑ دیا
جہاں میں تجھ سا کوئی بھی تو فتح یاب نہ تھا
*
کچھ اس لیے بھی ترے نام کے ہوئے دشمن
تو وہ سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا
*
کچھ اس طرح سے بہتر کا انتخاب کیا
کسی رسول کا بھی ایسا انتخاب نہ تھا
*
حسین ابنِ علی کو نہ آفتاب کہو
وہ جب تھا جب کہ کہیں نامِ آفتاب نہ تھا
*
حُسین مصدرِ اُمّ الکتاب کیا کہنا
بجز تمھارے کوئی وارثِ کتاب نہ تھا
*
حُسین باعثِ تخلیقِ کائنات ہے تُو
غضب ہے تیرے لیے کربلا میں آب نہ تھا
***