نظم طباطبائی
چمکا خدا کا نور عرب کے دیار میں
پھیلی شعاع ہند میں چین و تتار میں
*
پہنچا ستارہ اوج پہ دینِ حُسین کا
اب تک تھا گردشِ فلکِ کج مدار میں
*
چونکیں ذرا یہود و نصاریٰ تو خواب سے
آئی نسیم صبحِ شبِ انتظار میں
*
وردِ زبانِ پاک صحیفہ ہے نور کا
اترا تھا جو خلیل پہ گلزارِ نار میں
*
ہے یاد دشت میں گہر افشانیِ کلیم
اور موعظ مسیح کا وہ کوہسار میں
*
موسیٰ کی رات کی مناجات طُور پر
داؤد کا وظیفہ وہ صبح بہار میں
*
بت ہو گیا ہے سنگ سرِ بت پرست پر
سرکہ بنی شراب کہن بادہ خوار میں
*
وہ جام پی کے اٹھ گئے پردے نگاہ سے
دریائے علم و نور کو پایا کنار میں
***