شہزاد احمد
وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے
کتنے بیدرد ہیں یہ لوگ زمانے والے
*
اہلِ کوفہ نے بلایا تو چلے آئے ہیں
کیسے سادہ ہیں محمد کے گھرانے والے
*
رحم کرتے ہیں تو اس کی بھی نہیں حد کوئی
کسی سفاک کو خاطر میں نہ لانے والے
*
فیصلہ آپ کریں، آپ کو کرنا کیا ہے؟
آپ پر چھوڑتے ہیں شمع بجھانے والے
*
ظلم کے تیروں سے چھلنی ہیں حسین ابنِ علی
غلبۂ کفر سے دنیا کو بچانے والے
*
ظلم کرنے پہ تلی بیٹھی ہے دنیا ساری
اور ہم لوگ فقط سوگ منانے والے
*
عرصۂ دہر میں باقی نہیں رہتا کچھ بھی
خاک ہو جاتے ہیں خیموں کو جلانے والے
*