25%

غلام محمد قاصر

جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر

فرات جس کی طرف رواں ہے سلام اس پر

*

سبھی کنارے اسی کی جانب کریں اشارے

جو کشتیِ حق کا بادباں ہے سلام اس پر

*

جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں

وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے سلام اس پر

*

مری زمینوں کو اب نہیں خوفِ بے ردائی

جو ان زمینوں کا آسماں ہے سلام اس پر

*

ہر اک غلامی ہے آدمیّت کی نا تمامی

وہ حریّت کا مزاج داں ہے سلام اس پر

*

حیات بن کر فنا کے تیروں میں ضو فشاں ہے

جو سب ضمیروں میں ضو فشاں ہے سلام اس پر

*

کبھی چراغِ حرم کبھی صبح کا ستارہ

وہ رات میں دن کا ترجماں ہے سلام اس پر

*