غلام محمد قاصر
جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر
فرات جس کی طرف رواں ہے سلام اس پر
*
سبھی کنارے اسی کی جانب کریں اشارے
جو کشتیِ حق کا بادباں ہے سلام اس پر
*
جو پھول تیغِ اصول سے ہر خزاں کو کاٹیں
وہ ایسے پھولوں کا پاسباں ہے سلام اس پر
*
مری زمینوں کو اب نہیں خوفِ بے ردائی
جو ان زمینوں کا آسماں ہے سلام اس پر
*
ہر اک غلامی ہے آدمیّت کی نا تمامی
وہ حریّت کا مزاج داں ہے سلام اس پر
*
حیات بن کر فنا کے تیروں میں ضو فشاں ہے
جو سب ضمیروں میں ضو فشاں ہے سلام اس پر
*
کبھی چراغِ حرم کبھی صبح کا ستارہ
وہ رات میں دن کا ترجماں ہے سلام اس پر
*