خورشید رضوی
اشک میں گُھل گیا لہو، سرخ ہوا فضا کا رنگ
عرصۂ جاں پہ چھا گیا پھر وہی کربلا کا رنگ
*
کس سے بھلا وہ ٹل سکے، عزم ہو جب حُسین کا
کون اسے بدل سکے، رنگ ہو جب خدا کا رنگ
*
اس نے بجھا دیا چراغ، تا رہے سہل و سازگار
ظلمتِ پردہ دار میں، بدلی ہوئی ہوا کا رنگ
*
پر وہ سبھی تھے جاں نثار، سود و زیاں سے بر کنار
ان کے دلوں میں تھا کوئی رنگ تو تھا وفا کا رنگ
*
جب بھی خیال آ گیا اس سرِ سرفراز کا
صفحۂ دل سے اڑ گیا مصلحت و ریا کا رنگ
*
ڈھل نہ سکے گا تا ابد اب کفِ دستِ شام سے
خونِ دلِ شہید کا رنگ نہیں حنا کا رنگ
*
صرف کیے سخن ہزار، پھر بھی رہا مآلِ کار
مہر بلب حروف پر حسرتِ مدّعا کا رنگ
****