25%

خورشید رضوی

اشک میں گُھل گیا لہو، سرخ ہوا فضا کا رنگ

عرصۂ جاں پہ چھا گیا پھر وہی کربلا کا رنگ

*

کس سے بھلا وہ ٹل سکے، عزم ہو جب حُسین کا

کون اسے بدل سکے، رنگ ہو جب خدا کا رنگ

*

اس نے بجھا دیا چراغ، تا رہے سہل و سازگار

ظلمتِ پردہ دار میں، بدلی ہوئی ہوا کا رنگ

*

پر وہ سبھی تھے جاں نثار، سود و زیاں سے بر کنار

ان کے دلوں میں تھا کوئی رنگ تو تھا وفا کا رنگ

*

جب بھی خیال آ گیا اس سرِ سرفراز کا

صفحۂ دل سے اڑ گیا مصلحت و ریا کا رنگ

*

ڈھل نہ سکے گا تا ابد اب کفِ دستِ شام سے

خونِ دلِ شہید کا رنگ نہیں حنا کا رنگ

*

صرف کیے سخن ہزار، پھر بھی رہا مآلِ کار

مہر بلب حروف پر حسرتِ مدّعا کا رنگ

****