جلیل عالی
بندگانِ ریا کی نگاہوں میں شام و سحر اور تھے
اور اہلِ صفا کے رموزِ قیام و سفر اور تھے
*
آبجو پاس تھی بوند پانی کو ترسے ہوؤں کے لیے
منتظر باغِ جنت میں صبر و رضا کے ثمر اور تھے
*
نور پیشانیوں پر فروزاں تھا جو فیصلہ اور تھا
چور چہروں پر ٹھہرے ہوئے تھے جو اندر کے ڈر اور تھے
*
گو رہِ عشق میں شان پہلے بھی کم تو نہ تھی آپ کی
کربلا میں مگر سرخرو تھے سوا، معتبر اور تھے
*
سطح صحرا پہ عالی کہاں کوئی تحریر ٹھہری کبھی
لفظ لیکن لہو سے جو لکھے گئے ریت پر اور تھے
***