شبِ درمیان۔
عرفان صدیقی
(۱)
یہ عجب مسافتیں ہیں
یہ عجب مصافِ جاں ہے
کہ میں سینکڑوں برس سے
اسی دشتِ ماریہ میں
سرِ نہرِ شب کھڑا ہوں
وہی اک چراغِ خیمہ
وہی اک نشانِ صحرا
وہی ایک نخلِ تنہا
نہ فرشتگاں کے لشکر
نہ بشارتوں کے طائر
وہی اگلے دن کی آہٹ
یہ ستارہ ہے کہ نیزہ
یہ دعا ہے یا دھواں ہے
مگر اک صدا مسلسل
یہ کہاں سے آ رہی ہے
ابھی رات درمیاں ہے
ابھی رات درمیاں ہے
***