(دشتِ ماریہ سے)
(۲)
رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا
*
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارِ آب ہے پہرا لگا ہوا کیسا
*
ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خونبار
افق افق ہے یہ منظر گریز پا کیسا
*
اذان ہے کہ عَلم کیا بلند ہوتا ہے
یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا
*
یہ لوگ دشتِ جفا میں کسے پکارتے ہیں
یہ باز گشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
*
گلوۓ خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
*
یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے
یہاں تو معرکہ ہوگا، مقابلہ کیسا
*