(۳)
خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا
یم بہ یم آج بھی جاری ہے سفر پانی کا
*
دیکھنے میں وہی تصویر ہے سیرابی کی
اور دل میں ہے کوئی نقشِ دگر پانی کا
*
کون مشکیزی سرِ نیزہ عَلم ہوتا ہے
دیکھئے دشت میں لگتا ہے شجر پانی کا
*
آج تک گریہ کناں ہے اسی حسرت میں فرات
کاش ہوتا درِ شبّیر پسر پانی کا
*
تیری کھیتی لبِ دریا ہے تو مایوس نہ ہو
اعتبار اتنا مری جان نہ کر پانی کا
****