(۴)
سرابِ دشت تجھے آزمانے والا کون
بتا یہ اپنے لہو میں نہانے والا کون
*
سوادِ شام یہ شہزادگانِ صبح کہاں
ویاہ شب میں یہ سورج اگانے والا کون
*
یہ ریگزار میں کس حرفِ لا وال کی چھاؤں
شجر یہ دشتِ زیاں میں لگانے والا کون
*
یہ کون راستہ روکے ہوۓ کھڑا تھا ابھی
اور اب یہ راہ کے پتھر ہٹانے والا کون
*
یہ کون ہے کہ جو تنہائی پر بھی راضی ہے
یہ قتل گاہ سے واپس نہ جانے والا کون
*
بدن کے نقرئی ٹکڑے، لہو کی اشرفیاں
ادھر سے گزرا ہے ایسے خزانے والا کون
*
یہ کس کے نام پہ تیغِ جفا نکلتی ہوئی
یہ کس کے خیمے، یہ خیمے جلانے والا کون
*